104 views
آن لائن جماعت میں شرکت کرنا:
(۱۳۱)سوال: لاک ڈاؤن میں نماز کے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، مسجد کے بند ہونے کی وجہ سے جماعت میں شرکت نہیں ہو پا رہی ہے کیا اس صورت میں آن لائن شرکت کی جا سکتی ہے۔ مثلاً امام حرم کی اقتداء میں نماز پڑھنا یا مسجد میں نماز ہو اور گھر پر مائک کے ذریعہ امام کی اقتدا کی جائے یا کوئی شہر میں نماز پڑھائے اور لوگ دور دراز علاقوں میں اسکائپ کے ذریعہ اقتدا کریں یا انٹر نیٹ کے ذریعہ لائیو نماز ہو اور لوگ گھروں میں اقتداء کریں یہ درست ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں تفصیلی رہنمائی مطلوب ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد زید عالم، سمستی پور
asked Jan 1 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: اس طرح اقتداء کرنا کہ کوئی شہر میں نماز پڑھائے اور گھر میں اسکائپ کے ذریعہ اقتدا کی جائے یا گھر میں نماز ہو اور مائک لگادیا جائے اور چار پانچ گھروں میں لوگ نماز پڑھ لیں، ایک بلڈنگ میںمائک سے نماز ہو اوربازو کی بلڈنگ میں لوگ اس کی اقتداء میں نماز پڑھیں یا امام حرم کی ٹیلی ویزن پر نشر ہونے والی نماز کی اقتدا کریں یا مسجد میں تراویح ہو اور نیٹ کے ذریعہ لائیو اس کو چلایا جائے اور لوگ گھر میں تراویح پڑھ لیں اقتدا کی یہ سب صورتیں درست نہیں ہیں ان صورتوں میں نماز نہیں ہوگی۔
اس سلسلے میں ضروری ہے کہ اقتداء کے شرائط کو معلوم کرلیا جائے کہ کوئی شخص کسی امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو اقتداء کے صحیح ہونے کے لیے کیا شرائط ہیں ؟ علامہ شامیؒ نے اقتداء کی دس
شرطیں ذکر کی ہیں (۱) مقتدی اقتداء کی نیت کرے کہ میں اس امام کے پیچھے یہ نماز پڑھ رہا ہوں (۲) دونوں کی نماز ایک ہو اگردونوں کی نماز الگ الگ ہوگی مثلا امام ظہر کی نماز پڑھا رہا ہو اور مقتدی عصر کی نیت کرے یا امام نے نفل کی نیت کی اور مقتدی فرض کی نیت کرے تو نماز نہیں ہوگی (۳)مکان متحد ہو (۴) امام کی نماز صحیح ہو ، (۵) عورت ،مرد کے محاذات میں نہ ہو ، (۶) مقتدی امام سے آگے نہ ہو اگر مقتدی امام سے آگے ہوگیا تو مقتدی کی نماز نہیں ہوگی (۷) مقتدی کو امام کے حرکات و انتقالات کا علم ہو(۸) مقتدی کو امام کے مسافر یا مقیم ہونے کا علم ہو (۹) مقتدی امام کے ارکان میں شریک ہواگر امام کسی رکن میں ہو اور مقتدی دوسرے رکن میں ہو تو مقتدی کی نماز درست نہیں ہوگی ، (۱۰)مقتدی امام کے برابر ہو یا اس سے کمتر ہو مثلا اگر تندرست آدمی نے معذور کی اقتداء کی تو نمازدرست نہیں ہوگی یا رکوع سجدہ کرنے والا شخص اگر اشارہ سے نماز پڑھنے والے کی اقتداء کرے تو اقتداء درست نہ ہوگی۔
’’والصغری ربط صلاۃ المؤتم بالإمام بشروط عشرۃ نیۃ المؤتم الاقتداء واتحاد مکانہما وصلاتہا وصلۃ بإمامۃ وعدم محاذاۃ لإمرأۃ وعدم تقدمہ علیہ بعقبہ وعلمہ بانتقالاتہ وبحالہ من إقامۃ وسفر مشارکۃ في الأرکان وکونہ مثلہ أو دونہ فیہا‘‘(۱)
یہ اقتدا کی شرطیں ہیں ان میں ایک شرط بہت اہم ہے جس کا تفصیلی تذکرہ مسئلے کو حل کرنے میں معاون ہوگا ۔وہ یہ کہ امام اور مقتدی کی جگہ کا ایک ہونا ضروری ہے یہ اتحاد مکان حقیقی ہو یا حکمی ہو ۔مثلا مسجد میں امام ہے اور اسی مسجد میں مقتدی ہے تو یہ اتحاد مکان حقیقی ہے اور نیچے کی منزل میں امام ہے اور اوپر کی منزل میں مقتدی ہے تو یہ اتحادِ مکان حکمی ہے، اقتداء کی یہ صورت درست ہے۔
اتحاد مکان کی شرط، سوائے امام مالک کے تمام ائمہ کے یہاں ضروری ہے ،یہی وجہ ہے کہ مکہ کے ہوٹلوں میں رہ کر کوئی حرم شریف کے امام کی اقتداء کرے تو سوائے امام مالک کے تمام ائمہ کے یہاں نماز درست نہیں ہوگی؛ اس لیے کہ اقتداء، تابع ہونے کا تقاضا کرتا ہے اوراتحاد مکان تابع
ہونے کے لیے لازم ہے جب مکان مختلف ہوگا تو تبعیت ختم ہوجائے گی ، اور تبعیت کے ختم ہونے سے اقتداء ختم ہوجائے گی ۔
احناف کے یہاں اتحاد ِمکان کی تفصیل یہ ہے کہ امام او رمقتدی کے مکان کا مختلف ہونا یہ مفسد نماز ہے، خواہ مقتدی پر امام کی حالت مشتبہ ہو یا نہ ہو ، اسی وجہ سے اگر پیدل چلنے والا سوار شخص کی اقتداء کرے تو نماز درست نہیں ہوگی ، یا دو لوگ الگ الگ سواری میں ہو ں اور ایک دوسرے کی اقتداء کریں تو نماز درست نہیں ہوگی ، اسی طرح امام اور مقتدی کے درمیان میںراستہ ہو جس میں لوگ گزرتے ہوں یا نہر ہو جس میں کشتی چلتی ہو، تو ان تمام صورتوں میں اقتداء درست نہیں ہوگی، اس سلسلے میں ایک دلیل حضرت عمرؓ  کا قول ہے۔
’’من کان بینہ و بین الإمام نہر أو طریق أو صف من النساء فلا صلاۃ لہ‘‘(۱)
مسجد مکان واحد کے حکم میں ہے لہذ۱ اگر دیوار وغیرہ حائل ہو اور امام کے انتقالات کا علم ہورہا ہو تو ااقتداء درست ہے اگر امام کی حالت مشتبہ ہو تو پھر اقتداء درست نہیں ہے ۔اگر مقتدی مسجد کی چھت پر ہو یا مسجد سے متصل مکان کی چھت پرہو اور اس مکان اورمسجد کے درمیان کوئی راستہ وغیرہ حائل نہ ہو تو اقتداء درست ہوجائے گی؛ اس لیے کہ اتحاد مکان حکما موجود ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اقتداء کی شرطوں میں اہم شرط مکان کا متحد ہونا ہے خواہ امام کی حالت کا علم ہو یا علم نہ ہو ، علامہ شامی ؒلکھتے ہیں:
’’فقد تحرر بما تقرر أن اختلاف المکان مانع من صحۃ الاقتداء و لو بلا اشتباہ و لا یصح الاقتداء و إن اتحد المکان ثم رأیت الرحمتي قد قرر ذلک فاغتنم ذلک‘‘(۱)
اس تفصیل کی روشنی میں آن لائن کی تمام صورتیں ناجائز ہیں؛ اس لیے کہ اقتداء کی بنیادی شرط اتحاد مکان مفقود ہے۔
اگر امام مسجد میں نماز پڑھائے او رآواز گھر وں میں آرہی ہو تو اگر گھر مسجد سے متصل ہے اور درمیان میں کوئی فاصلہ نہیں ہے تو اقتداء درست ہے؛ لیکن اگر درمیان میں کوئی فاصلہ ہو تو پھر اقتداء درست نہیں ہے ، اسی طرح ،ایک گھر میں نماز ہو اور مائک کے ذریعہ دوسرے گھر وں میں اقتداء کی جائے تو یہ بھی درست نہیں ہے ،اس لیے کہ مکان مختلف ہے۔
 اسکائپ کے ذریعہ اقتداء کرنے میں مذکورہ خرابی کے علاو ہ دوسری بہت سی خرابیاں ہیں، مثلانیٹ میں بعض مرتبہ کنکشن کٹ سکتا ہے اور امام کے انتقال کا علم نہیں ہو پائے گا، اسی طرح اسکائپ میں یا انٹر نیٹ کے ذریعہ جو آواز آئے گی وہ عکس ہوگی، تصویر کے سامنے نماز پڑھنا لازم آئے گا،عام طور پر لائیو میں بھی پہلے تصویر محفوظ ہوتی ہے؛ پھر ٹیلی کاسٹ ہوتی ہے ہم دیکھتے ہیںکہ کوئی پروگرام دو ٹی وی چینل پر لائیو چلتا ہے لیکن دونوںکے درمیان فرق ہوتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لائیوپروگرام پہلے محفوظ ہوتا ہے پھر نشر ہوتاہے اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ امام رکوع سے واپس آجائے او رلوگ ابھی قیام میں ہی ہوں؛ اس لیے اسکائپ؛ بلکہ آن لائن کی تمام صورتیں ناجائز ہیں اس سے نماز صحیح نہیں ہوگی۔

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۶، مکتبہ زکریا دیوبند۔
(۱) ابن بطال، شرح صحیح البخاري: ج ۲، ص: ۳۵۱۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص475

answered Jan 1 by Darul Ifta
...