الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر وہ زمین سرکاری ذمہ داروں نے بخوشی مسجد کے لیے دی تھی جیسا کہ تحریری سوال سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو مسجد ہی کہہ کر پکارا جاتا ہے اور ایک عرصہ سے پانچوں وقت نماز با جماعت بھی ہو رہی ہے تو اس صورت میں وہ شرعی مسجد بن گئی ہے اور چوں کہ اوقات نماز اور امام وغیرہ مقرر ہیں تو اس جگہ پر دوسری جماعت مکروہ ہوگی اور اگر زبردستی اس زمین پر قبضہ کر کے نماز کی جگہ بنائی ہے کہ سرکاری ذمہ دار اب بھی اس جگہ کے مسجد بنانے پر راضی نہیں ہیں تو وہ شرعی مسجد نہیں بنی اور نہ ہی اس میں نماز فی المسجد کا ثواب ملے گا البتہ جماعت کا ثواب ملتا رہے گا اور وہ مسجد چوں کہ شرعی مسجد قرار نہیں دی جا سکتی بناء بریں وہاں جماعت ثانیہ درست ہوگی۔(۱)
(۱) یکرہ تکرار الجماعۃ في مسجد محلۃ بأذان وإقامۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن
(قولہ ویکرہ) أي تحریما لقول الکافي: لا یجوز، والمجمع لا یباح، وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي (قولہ بأذان وإقامۃ إلخ) والمراد بمسجد المحلۃ ما لہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعا۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۸۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 480