49 views
کورونا وائرس کی وجہ سے مسجد میں جماعت ثانیہ:
(۱۳۷)سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:
موجودہ حالات میں ملکی قوانین کی رعایت کی وجہ سے ایک ہی نماز ایک ہی مسجد میں امام کی  تبدیلی کے ساتھ متعدد مرتبہ ادا کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ حضور والا سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ جواب عنایت فرمائیںکرم ہوگا؟
فقط: والسلام
المستفتی: امیر حمزہ ، دیوبند
asked Jan 1 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس مسجد میں امام ومؤذن متعین ہوں اس میں ایک جماعت ہوجانے کے بعد دوسری جماعت کرنامکروہ تحریمی ہے؛ اس لیے کہ اس سے جماعت کی اہمیت کم ہوجاتی ہے، اور جماعت کا جو مقصد ہے اجتماعیت اور اتحادکا اظہار کرنا وہ مفقود ہوجاتا ہے اس لیے اگر دوسری جماعت کی اجازت دی جائے گی، تو جو لوگ امام سے ناراض ہوں گے وہ ایک جماعت کے بعد دوسری جماعت کر لیں گے اس طرح آپسی اتحاد بھی پارہ پارہ ہوجائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جماعت ثانیہ ثابت نہیں ہے؛ بلکہ طبرانی کی روایت ہے کہ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت فوت ہوگئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے اور گھر والوں کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھی۔ مسجد میں آپ نے جماعت نہیں کی۔ حضرات صحابہؓ  کا بھی معمول یہی تھا کہ اگر ان کی جماعت فوت ہوجاتی، تو تنہا تنہا نماز پڑھتے تھے؛ اس لیے ایک مسجد میں بار بار جماعت کرنے سے گریز کیا جائے، ایک جماعت ہوجانے کے بعد دوسری جماعت کے لیے مسجد کے علاوہ جگہ متعین کرلی جائے، مثلاً جمعہ میں مسجد کے چھوٹی ہونے کی وجہ سے تمام لوگ مسجد کی نماز میں شریک نہیں ہوسکتے ہیں، تو دوسری جگہ مثلاً مدرسہ، شادی ہال وغیرہ کا انتخاب کرلیا جائے اور وہاں پر دوسری جماعت کی جائے اصل حکم یہی ہے، لیکن اگر کوئی متبادل جگہ کا نظم نہ ہو سکے جیسا کہ بڑے شہروں میں دیکھا گیا ہے، تو لوگوں کو چاہیے کہ کسی متبادل جگہ کی کوشش کریں او رجب تک کے لیے ایک ہی مسجد میں دوسری جماعت کر سکتے ہیں۔
اسی طرح موجودہ حالات میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک ساتھ تمام لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، اسی طرح سوشل ڈسٹینس کی وجہ سے تمام افراد ایک ساتھ نہیں آسکتے ہیں، تو ایسی صورت میں حضرت امام ابویوسف ؒ کے قول پر عمل کرتے ہوئے جماعت ثانیہ کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، حضرت امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک اگر جماعت ثانیہ ہیئت اولی پر نہ ہو تو جائز ہے یعنی جس جگہ پہلا امام کھڑا ہوا ہو، اس جگہ دوسری جماعت کا امام کھڑا نہ ہو؛ بلکہ اس سے ایک صف چھوڑ کر کھڑا ہو۔
غور کیا جائے تو شریعت کا منشاء جمعہ وجماعت سے اجتماعت اور اتحاد کا مظاہرہ ہے، اسی لیے حکم ہے کہ شہر کی ایک جامع مسجد میں تمام حضرات جمعہ کی نماز پڑھیں؛ لیکن اگر وہ جامع مسجد لوگوں کے لیے ناکافی ہو جائے، تو دوسری مسجدوں میں بھی فقہاء نے جمعہ پڑھنے کی اجازت دی ہے، اسی طرح عذر کی بناء پر گھر میں جماعت کی اجازت ہے، مثلاً اگر بارش تیز ہو اور جماعت میں شامل ہونا ممکن نہ ہو، تو گھر میں بھی جماعت کی جاسکتی ہے۔ اس سے اجتماعیت متاثر نہیں ہوتی ہے اسی طرح اگر موجودہ حالات میں ملکی قوانین کی رعایت کرتے ہوئے دوسری جماعت کرلی جائے، تو اس کی بھی گنجائش معلوم ہوتی ہے اور جماعت ثانیہ کی کراہت کی جو علت ہے وہ بھی نہیں پائی جارہی ہے؛ بلکہ یہاں پر جماعت ثانیہ کرنا اہتمام جماعت کے لیے ہے۔ تاہم عذر کے ختم ہونے کے بعد دوسری جماعت قائم کرنا بند کردیا جائے۔
’’إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار  فرجع وقد صلی في المسجد بجماعۃ، فدخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في منزل بعض أہلہ فجمع أہلہ فصلی بہم جماعۃ، ولو لم یکرہ تکرار الجماعۃ في المسجد لما ترکہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مع علمہ بفضل الجماعۃ في المسجد۔ وروي عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، أن أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا إذا فاتتہم الجماعۃ في المسجد صلوا في المسجد فرادیٰ ولأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ فیستعجلون فتکثر الجماعۃ۔ اہـ۔(۱) وحینئذ فلو دخل جماعۃ المسجد بعد ما صلی أہلہ فیہ فإنہم یصلون وحدانا، وہو ظاہر الروایۃ ظہیریۃ۔ وفي آخر شرح المنیۃ: وعن أبي حنیفۃؒ لو کانت الجماعۃ أکثر من ثلاثۃ یکرہ التکرار وإلا فلا۔ وعن أبي یوسف إذا لم تکن علی الہیئۃ الأولی لا تکرہ وإلا تکرہ وہو الصحیح، وبالعدول عن المحراب تختلف الہیئۃ کذا في البزازیۃ۔ (۱)
(۱) (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان والإقامۃ، فصل بیان محل وجوب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۰۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإیمان، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص:۲۸۹)
وتسقط الجماعۃ بالأعذار حتی لا تجب علی المریض الخ … أو کان إذا خرج یخاف أن یحبسہ غریمہ في الدین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الأول في الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 483

 

answered Jan 1 by Darul Ifta
...