الجواب وباللہ التوفیق: مسجد میں دو جماعتیں کرنا مکروہ تحریمی ہے؛ کیوں کہ دوسری جماعت سے لوگوں کے دلوں سے پہلی جماعت کی اہمیت وعظمت ختم ہو جائے گی اور پہلی جماعت کے افراد بھی کم ہو جائیں گے جیسا کہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب در مختار میں ہے:
’’ ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن‘‘ (قولہ: ویکرہ) أي تحریماً؛ لقول الکافي: لایجوز، والمجمع: لایباح، وشرح الجامع الصغیر: إنہ بدعۃ، کما في رسالۃ السندي، (قولہ: بأذان وإقامۃ إلخ) … والمراد بمسجد المحلۃ ما لہ إمام وجماعۃ معلومون، کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعاً‘‘(۱)
البتہ مسجد طریق یا ایسی مسجد جس میں امام مؤذن مقرر نہ ہوں اس میں دوسری جماعت جائز ہے نیز اگر کسی مجبوری اورعذر کی وجہ سے دوسری جماعت کرلی گئی تو نماز ادا ہو جاتی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
’’واختلف في کون الأمطار والثلوج والأوحال والبرد الشدید عذرا وعن أبي حنیفۃ: إن اشتد التأذي بعذر قال الحسن: أفادت ہذہ الروایۃ أن الجمعۃ والجماعۃ في ذلک سواء، لیس علی ما ظنہ البعض أن ذلک عذر في الجماعۃ لأنہا سنۃ لا في الجمعۃ لأنہا من آکد الفرائض‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸۔
(۲) أیضًا:ص: ۲۹۰۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 487