309 views
عذر کی وجہ سے جمعہ کی جماعت ثانیہ کا حکم:
(۱۴۰)سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:
ہماری مسجد دو منزلہ ہے، تمام نمازیں اوپر والی منزل پر ہوتی ہیں۔ جمعہ کی نماز گرمی کے موسم میں ۳۰ـ۔۱ بجے ہوتی ہے اور سردی کے موسم میں ۴۵۔  ۱۲ بجے ہوتی ہے اور ہمارے شہر میں تمام مساجد میں جمعہ کی نماز کے عام طور پر یہی اوقات ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان اوقات میں کام پر ہوتے ہیں اس لیے ان اوقات پر جمعہ کی نماز کے لیے آنا مشکل ہوتا ہے اس لیے کچھ مساجد میں ایسے لوگوں کے لیے تاخیر سے جمعہ کی دوسری جماعت کی جاتی ہے، ہم بھی اپنی مسجد میں جمعہ کی جماعت ثانیہ نیچے کے جماعت خانہ میں ہماری مسجد کے اور شہر کی دوسری مساجد کے ایسے کام والے افراد کے لیے تاخیر سے کرتے ہیں۔ ہمارے شہر کے ایک مفتی صاحب نے بتایا کہ آپ اپنی مسجد میں جو جمعہ کی جماعت ثانیہ کرتے ہو وہ مکروہ تحریمی ہے اور وجہ یہ بتائی کہ تمہارے پاس جو مدرسہ کی بلڈنگ ہے جو مسجد کے بالکل سامنے قریب ہی میں ہے اس میں ایک ہال اور دو کمرے ہیں اس میں جمعہ کی نماز کام والے حضرات کے لیے تاخیر سے رکھو۔ اسکے علاوہ میں بھی چوں کہ جمعہ کی جماعت ثانیہ میں امامت کرتا ہوں اس لیے خود میںنے دو باتیں نوٹ کیں جو میں یہ سمجھتا ہوں کہ جمعہ اور عصر کی جماعت اولی کی تقلیل کا سبب ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہماری مسجد کے کچھ مصلیٰ حضرات اور شہر کی دوسری مساجد کے کچھ حضرات جو جماعت اولی کے وقت کام پر نہیں ہوتے اور ہماری مسجد میں یا اپنی اپنی مساجد میں جماعت اولی میں شریک ہو سکتے ہیں پھر بھی محض سہولت کی بناء پر کہ تاخیر سے نماز ہوتی ہے جماعت ثانیہ میں آجاتے ہیں حالاں کہ جماعت ثانیہ کام والے حضرات کے لیے رکھی گئی ہے۔ اور دوسری بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ کہ سردی کے موسم میں جب جمعہ کی جماعت ثانیہ ختم ہوتی ہے اور لوگ اپنی سنن و نوافل سے فارغ ہوتے ہیں اس کے فوراً پانچ یا دس منٹ کے بعد عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے تو جو یہ حضرات جمعہ کی جماعت ثانیہ کے لیے آئے تھے ان میں سے ہماری مسجد کے مصلی اور دوسری مساجد کے مصلی ملا کر کچھ آٹھ دس لوگ عصر کی نماز ابتدائی وقت میں جماعت کے ساتھ نیچے کے جماعت خانہ ہی میں پڑھ لیتے ہیں تاکہ جلدی فارغ ہو جائیں جو میں یہ سمجھتا ہوں کہ عصر کی جماعت کی قلت کا سبب ہے حالاں کہ ہماری مسجد کے مصلی ہماری مسجد میں اور دوسری مساجد کے مصلی اپنی اپنی مساجد میں جاکر عصر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔
اس ساری تفصیل کے بعد مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ کیا ان تینوں وجوہات (۱) ہمارے پاس جمعہ کی جماعت ثانیہ کے لیے مدرسہ کی بلڈنگ میں جگہ ہے (۲) جماعت ثانیہ میں بعضے وہ مصلّی حضرات شامل ہو جاتے ہیں جو جماعت اولی کے وقت کام پر نہیں ہوتے اور جن کی جماعت ثانیہ میں حاضری جماعت اولی کے لیے قلت کا سبب ہے (۳) جمعہ کی جماعت ثانیہ سے فارغ ہونے کے بعد کچھ حضرات سردی کے موسم میں عصر ابتدائی وقت ہی میں پڑھ لیتے ہیں جو عصر کی اصل جماعت کے لیے قلت کا سبب ہے) کے باوجود کیا ہم جمعہ کی جماعت ثانیہ ہماری مسجد کے نیچے کے جماعت خانہ میں بغیر کسی کراہت کے پڑھ سکتے ہیں؟ یا پھر مدرسہ کی بلڈنگ میں پڑھیں؟
اگر مسجد میں جمعہ کی جماعت ثانیہ مکروہ ہے اور ہم مدرسہ کی بلڈنگ میں جمعہ کی نماز شروع کریں مگر مستقبل میں جگہ کم پڑ جائے، تو جگہ کی قلت کے باعث پھر سے مسجد کے نیچے کے جماعت خانہ میں جمعہ کی جماعت ثانیہ کر سکتے ہیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد ارشد، بھوپال
asked Jan 1 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: شریعت کا مقصدجمعہ کی نماز سے اجتماعیت کا اظہار ہے  اس لیے بڑی اور جامع مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم ہے، ایک مسجد میں کسی بھی نماز میں دوسری جماعت مکروہ تحریمی ہے۔ خاص طور پر جمعہ کی جماعت ثانیہ بھی مکروہ تحریمی ہے؛ اس لیے کہ اس سے جمعہ کی اجتماعیت متأثر ہوتی ہے جب شہر میں کئی مساجد ہوں تو بہتر یہ ہے کہ ہر مسجد میں جمعہ کی نماز کے اوقات مختلف رکھیں تاکہ اگر کسی ایک جگہ جماعت فوت ہوجائے تو دوسری مسجد میں جماعت مل جائے، اس کے لیے قریب کے علاقے کی مساجد کی ایک میٹنگ منعقد کرکے اوقات نماز کواس طرح ترتیب دیا جاسکتا ہے جو ہر طرح کے لوگوں کے لیے ممکن العمل ہو۔ آپ نے جو عذربیان کیا ہے اس کے لیے مسجد میں یا مسجد کے سامنے مدرسہ میں جماعت ثانیہ کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس سے جمعہ کی اجتماعیت متاثر ہوتی ہے۔ علامہ شامیؒ نے یہاں تک لکھا ہے کہ جمعہ کے بعد جامع مسجد کو مقفل کر دیا جائے تاکہ دوسرے لوگ جماعت نہ کرسکیں تاہم اگر اس پر عمل نہ ہوسکے، تو مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ میں جماعت ثانیہ کا نظم کیا جائے۔ مسجد میں جماعت ثانیہ کرنا مذکورہ عذر کی بنا پر درست نہیں ہے۔
’’ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن‘‘ (۱)، ’’(وکذا أہل مصر فاتتہم الجمعۃ) فإنہم یصلون الظہر بغیر أذان ولا إقامۃ ولا جماعۃ۔ ویستحب للمریض تأخیرہا إلی فراغ الإمام وکرہ إن لم یؤخر ہو الصحیح (قولہ إلا الجامع) أي: الذي تقام فیہ الجمعۃ فإن فتحہ في وقت الظہر ضروري والظاہر أنہ یغلق أیضا: بعد إقامۃ الجمعۃ لئلا یجتمع فیہ أحد بعدہا، إلا أن یقال إن العادۃ الجاریۃ ہي اجتماع الناس في أول الوقت فیغلق ما سواہ مما لا تقام فیہ الجمعۃ لیضطروا إلی المجيء إلیہ وعلی ہذا فیغلق غیرہ إلی الفراغ منہا لکن لا داعی إلی فتحہ بعدہا فیبقی مغلوقا إلی وقت العصر ثم کل ہذا مبالغۃ في المنع عن صلاۃ غیر الجمعۃ وإظہارا لتأکدہا‘‘(۱) ’’وتؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ و ہو قول أبي حنیفۃ و محمد رحمہما اللّٰہ و ہو الأصح‘‘(۲) ’’وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ مطلقا کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۸۸۔
(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص:۳۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص:۲۰۹۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في صحۃ الجمعۃ بمسجد المرجۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص488 تا 491

 

answered Jan 1 by Darul Ifta
...