الجواب وباللہ التوفیق: شریعت کا مقصدجمعہ کی نماز سے اجتماعیت کا اظہار ہے اس لیے بڑی اور جامع مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم ہے، ایک مسجد میں کسی بھی نماز میں دوسری جماعت مکروہ تحریمی ہے۔ خاص طور پر جمعہ کی جماعت ثانیہ بھی مکروہ تحریمی ہے؛ اس لیے کہ اس سے جمعہ کی اجتماعیت متأثر ہوتی ہے جب شہر میں کئی مساجد ہوں تو بہتر یہ ہے کہ ہر مسجد میں جمعہ کی نماز کے اوقات مختلف رکھیں تاکہ اگر کسی ایک جگہ جماعت فوت ہوجائے تو دوسری مسجد میں جماعت مل جائے، اس کے لیے قریب کے علاقے کی مساجد کی ایک میٹنگ منعقد کرکے اوقات نماز کواس طرح ترتیب دیا جاسکتا ہے جو ہر طرح کے لوگوں کے لیے ممکن العمل ہو۔ آپ نے جو عذربیان کیا ہے اس کے لیے مسجد میں یا مسجد کے سامنے مدرسہ میں جماعت ثانیہ کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس سے جمعہ کی اجتماعیت متاثر ہوتی ہے۔ علامہ شامیؒ نے یہاں تک لکھا ہے کہ جمعہ کے بعد جامع مسجد کو مقفل کر دیا جائے تاکہ دوسرے لوگ جماعت نہ کرسکیں تاہم اگر اس پر عمل نہ ہوسکے، تو مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ میں جماعت ثانیہ کا نظم کیا جائے۔ مسجد میں جماعت ثانیہ کرنا مذکورہ عذر کی بنا پر درست نہیں ہے۔
’’ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن‘‘ (۱)، ’’(وکذا أہل مصر فاتتہم الجمعۃ) فإنہم یصلون الظہر بغیر أذان ولا إقامۃ ولا جماعۃ۔ ویستحب للمریض تأخیرہا إلی فراغ الإمام وکرہ إن لم یؤخر ہو الصحیح (قولہ إلا الجامع) أي: الذي تقام فیہ الجمعۃ فإن فتحہ في وقت الظہر ضروري والظاہر أنہ یغلق أیضا: بعد إقامۃ الجمعۃ لئلا یجتمع فیہ أحد بعدہا، إلا أن یقال إن العادۃ الجاریۃ ہي اجتماع الناس في أول الوقت فیغلق ما سواہ مما لا تقام فیہ الجمعۃ لیضطروا إلی المجيء إلیہ وعلی ہذا فیغلق غیرہ إلی الفراغ منہا لکن لا داعی إلی فتحہ بعدہا فیبقی مغلوقا إلی وقت العصر ثم کل ہذا مبالغۃ في المنع عن صلاۃ غیر الجمعۃ وإظہارا لتأکدہا‘‘(۱) ’’وتؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ و ہو قول أبي حنیفۃ و محمد رحمہما اللّٰہ و ہو الأصح‘‘(۲) ’’وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ مطلقا کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۸۸۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص:۳۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص:۲۰۹۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في صحۃ الجمعۃ بمسجد المرجۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص488 تا 491