الجواب وباللہ التوفیق: اگر مذکورہ مسجد میں امام اور مؤذن مقرر ہیں اور نماز وجماعت کے اوقات بھی مقرر ہیں، تو اس مسجد میں جماعت ثانیہ مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ شرعی مسجد سے الگ ہٹ کر دوسری جگہ پر جماعت ثانیہ کر سکتے ہیں؛ لیکن اس کی عادت نہ ڈالیں کہ اس میں جماعت اولیٰ کی تقلیل اور اس کی طرف سے بے توجہی ہے جو ایک مسلمان کے لیے مناسب نہیں ہے۔
’’یکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أوفي مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن ویکرہ أي تحریماً لقول الکافي، لا یجوز، والمجمع لا یباح، وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي ’’قولہ بأذان وإقامۃ‘‘۔۔۔ والمراد بمسجد المحلۃ مالہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدرر وغیرہا، قال في المنبع: والتقیید بمسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعاً‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸، زکریا دیوبند۔
المسجد إذا کان لہ إمام معلوم وجماعۃ معلومۃ في محلۃ، فصلی أہلہ فیہ بالجماعۃ لایباح تکرارہا فیہ بأذان ثان، أما إذا صلوا بغیر أذان یباح إجماعاً وکذا في مسجد قارعۃ الطریق، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، فصل في الجماعۃ‘‘:ج۱، ص: ۴۱، ۱۴۰)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 491