135 views
جماعت ثانیہ کے سلسلے میں ائمہ کے مذاہب اور ان کے دلائل:
(۱۴۲)سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:
جماعت ثانیہ کا کیا حکم ہے، اس سلسلے میں ائمہ کی کیا آراء ہیں اور دلائل کے اعتبار سے کون سامذہب زیادہ قوی ہے تفصیل سے مطلع فرمائیں عین نوازش ہوگی؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد فردوس، کیمور
asked Jan 1 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضرت امام احمدؒ اور امام اسحق ؒبلاکراہت مسجد میں جماعت ثانیہ کی اجازت دیتے ہیں، حضرت امام ابوحنیفہ ؒ امام مالکؒ اور حضرت امام شافعی ؒ جماعت ثانیہ کو ناجائز کہتے ہیں۔ گویا جمہور کے نزدیک جماعت ثانیہ درست نہیں ہے۔ احناف کے مسلک کی تفصیل یہ ہے کہ جن کی جماعت چھوٹ گئی ہو وہ گھر میں لوگوں کو جمع کرکے جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لیں، یا دوسری مسجد میں جماعت تلاش کریں مل جائے تو ٹھیک ہے،باقی اپنی مسجد میں اگر پڑھنا چاہیں تو تنہا نماز پڑھیں،جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں،چاہے اذان و اقامت کے ساتھ جماعت کریں یا بلااذان واقامت کے جماعت کریں۔امام ابویوسف ؒکی ایک روایت ہے کہ جماعت ثانیہ، اگر پہلی جماعت کی ہیئت کے خلاف ہواور ہیئت اولی کے خلاف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بلا اذ۱ن وا قامت کے ہو، محراب کے علاوہ ہو تو جماعت ثانیہ جائز ہے۔صاحب بدائع الصنائع نے امام محمد ؒ کا مسلک ذکر کیا ہے کہ ان کے نزدیک تداعی کے ساتھ جماعت ثانیہ ناجائز ہے  بلاتداعی جماعت ثانیہ جائز ہے؛ لیکن امام صاحب کے یہاں بالکل گنجائش نہیں ہے۔
’’وروي عن أبي یوسف أنہ إنما یکرہ إذا کانت الجماعۃ الثانیۃ کثیرۃ، فأما إذا کانوا ثلاثۃ أو أربعۃ فقاموا في زاویۃ من زوایا المسجد وصلوا بجماعۃ لا یکرہ، وروي عن محمد أنہ إنما یکرہ إذا کانت الثانیۃ علی سبیل التداعي والاجتماع فأما إذا لم یکن فلا یکرہ‘‘(۱)
امام شافعیؒ کتاب الام میں لکھتے ہیں:کہ ایک بار جماعت ہونے کے بعد دوبارہ جماعت کی ہم ہر گز اجازت نہیں دے سکتے ہیں؛ہاں اگر کوئی شخص دوبارہ جماعت کرلے توہم اس کی نماز کو صحیح کہیں گے۔

’’وإذا کان للمسجد إمام راتب ففاتت رجلا أو رجالا فیہ الصلاۃ صلوا فرادی ولا أحب أن یصلوا جماعۃ فإن فعلوا أجزأتہم الجماعۃ فیہ وإنما کرہت ذلک لہم لأنہ لیس مما فعل السلف قبلنا بل قد عابہ بعضہم ۔‘‘(۱)
وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ جماعت ثانیہ سلف سے ثابت نہیں ہے؛بلکہ بہت سے سلف نے جماعت ثانیہ پر انکار کیا ہے؛ اس لیے جماعت ثانیہ کی مذہب میں گنجائش نہیں ہے۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں:کہ جس محلے کی مسجد میں اذان ہوگئی اور وہاں کے امام نے ایک بار جماعت کے ساتھ نماز پڑھا دی ہو تو جن لوگوں نے جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے وہ تنہا تنہا نماز پڑھ لیں، ہم جماعت ثانیہ کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
’’قال مالک:  إذا جمع قوم في مسجد لہ إمام راتب ولم یحضر فلہ إذا جاء أن یجمع فیہ وإذا صلی فیہ إمامہ وحدہ ثم أتی أہلہ لم یجمعوا فیہ وصلوا أفذاذا‘‘(۲)
معلوم ہوا کہ جمہور کے نزدیک جماعت ثانیہ درست نہیں ہے؛بلکہ مکروہ تحریمی ہے۔یہ اس مسجد کے بارے میں ہے جس کا امام، مؤذن او رمصلی متعین ہوں یعنی آبادی کی مسجد کے بارے میں ہے، مسجد سوق جہاں امام مؤذن متعین نہ ہو تو ایسی مسجد میں جماعت ثانیہ کی گنجائش ہے، ایک دوسری قید یہ بھی ہے کہ وہ جماعت ثانیہ ممنوع ہے جس میں امام کی نماز بھی فرض ہو اور مقتدی کی نماز بھی فرض ہو اگر مقتدی کی نماز نفل ہے تو وہ جماعت ثانیہ ممنوع نہیں ہے۔
امام احمد ؒکے دلائل میں ایک دلیل ترمذی کی روایت ہے جس کو حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ جماعت ہونے کے بعد ایک شخص مسجد نبوی میں آیا اور وہ تنہا نماز پڑھنے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین کو خطاب کرکے فرمایا کہ تم میں سے کوئی آدمی ہے جو اس کی اقتداکرکے اس کو فائدہ پہنچادے،اس کے ثواب میں اضافہ کردے، تو حاضرین میں ایک شخص کھڑے ہوئے بیہقی میں ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور ان کے ساتھ نماز پڑھ لی۔ امام احمدؒ کہتے ہیں کہ دیکھو جماعت ثانیہ ہورہی ہے۔
امام احمد ؒکی دوسری دلیل یہ ہے کہ بخاری نے فضیلت جماعت کے سلسلے میں ترجمۃ الباب میں تعلیقا حضرت انس رضی اللہ عنہ کا عمل نقل کیا ہے۔ مسند ابویعلی اور بیہقی میں یہ روایت موصولا بھی مذکور ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حضرت انس ایک مسجد میں آئے جس میں جماعت ہوچکی تھی تو انہوں نے تین غلاموں کو جمع کیا اور اذان و اقامت کے ساتھ جماعت ثانیہ کی۔ اگر جماعت ثانیہ ناجائز ہوتی تو کیسے حضرت انس یہ عمل کرتے؟
مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ  کا عمل ذکر کیا گیا ہے کہ وہ جماعت ہونے کے بعد مسجد میں آئے اورانہوں نے اسود،علقمہ اور مسروق تینوں شاگردوں کو جمع کر کے جماعت کی اگر جماعت ثانیہ ناجائز ہوتی تو عبد اللہ بن مسعودؓ کیسے جماعت ثانیہ کرتے۔ جمہور کے دلائل اس باب میں زیادہ قوی معلوم ہوتے ہیں۔ ذیل میں ان کے دلائل کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔
(۱) طبرانی میںروایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضرورت سے عوالی مدینہ تشریف لے گئے تھے جب آپ وہاں سے واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ مسجد نبوی میں نماز ہوچکی تھی تو آ پ گھر تشریف لے گئے اور گھر والوں کو جمع کرکے جماعت سے نمازادا کی، اگر جماعت ثانیہ کی اجازت ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی کی فضیلت کو چھوڑ کر گھر میں نماز نہ پڑھتے، اپنے اہل کو مسجد نبوی لاکر جماعت ثانیہ کرتے؛ کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل امت کے لیے نمونہ ہوتا ہے اگر جماعت ثانیہ کی اجازت ہوتی تو آپ مسجد میں جماعت کرتے تاکہ امت کے لیے نمونہ بن جائے۔
(۲) مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت حسن بصریؒ کا مقولہ ہے، فرماتے ہیں: صحابہؓ  کا معمول یہ تھا کہ اگر جماعت چھوٹ جاتی تو صحابہؓ  تنہا نماز پڑھتے تھے،جماعت نہیں کرتے تھے، ظاہرہے کہ جماعت کی نماز کی بڑی فضیلت ہے اگر دوبارہ جماعت کی گنجائش ہوتی تو کیا صحابہؓ جماعت کی فضیلت کو چھوڑ دیتے۔
(۳)سب سے مضبوط دلیل یہ ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جی چاہتا ہے کہ میں نماز قائم کرادوں اور جو لوگ بلاعذر کے جماعت میں نہیں آتے ہیں ان کے گھر وں کو آ گ لگادوں اگر جماعت ثانیہ کی گنجائش ہوتی تو جو لوگ کہ جماعت میں شریک نہیں ہوتے تھے ان کے لیے عذر تھا کہ وہ کہہ دیتے کہ حضور میں دوسری جماعت میں شریک ہوجاؤں گا۔
(۴) جماعت کے ساتھ نماز مشروع کرنے کی حکمت ومصلحت یہ ہے کہ مسلمانوں میں اجتماعیت اور اتفاق و اتحاد قائم ہو، الفت و محبت قائم ہو، اتحاد کی مصلحت کے پیش نظر جماعت مشروع ہوئی ہے اگر جماعت ثانیہ کی اجازت دے دی جاتی تو ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو امام راتب سے اختلاف ہوگا وہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا نہیں چاہیں گے اور جماعت کے ختم ہونے کا وہ انتظار کریں گے اور جماعت کے ختم ہونے کے بعد وہ مخالفین کو لے کر جماعت ثانیہ کریں گے اس سے اختلاف اور انتشار کی بنیاد پڑ جائے گی اور شریعت کا مزاج پارہ پارہ ہو جائے گا۔ گویا کہ جماعت ثانیہ جماعت کی روح اوراس کے منشاء کے خلاف ہے؛ اس لیے شریعت نے جماعت ثانیہ کا دروازہ بند کردیا اور ایک جماعت کی ترغیب دی تاکہ جماعت کی روح باقی رہ جائے۔
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی في المسجد بجماعۃ، فدخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في منزل بعض أہلہ فجمع أہلہ فصلی بہم جماعۃ ولو لم یکرہ تکرار الجماعۃ في المسجد لصلی فیہ۔ وروي عن أنس أن أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا إذا فاتتہم الجماعۃ في المسجد صلوا في المسجد فرادیٰ ولأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ؛ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ یتعجلون فتکثر وإلا تأخروا۔ اہـ۔  بدائع۔ وحینئذ فلو دخل جماعۃ المسجد بعد ما صلی أ ہلہ فیہ فإنہم یصلون وحدانا، وہو ظاہر الروایۃ ظہیریۃ۔ وفي آخر شرح المنیۃ: وعن أبي حنیفۃؒ لو کانت الجماعۃ أکثر من ثلاثۃ یکرہ التکرار وإلا فلا۔ وعن أبي یوسفؒ إذا لم تکن علی الہیئۃ الأولی لا تکرہ وإلا تکرہ وہو الصحیح، وبالعدول عن المحراب تختلف الہیئۃ کذا في البزازیۃ … قولہ الا في مسجد علی طریق ہو لیس لہ إمام ومؤذن راتب فلا تکرہ التکرار فیہ بأذان وإقامۃ بل ہو الأفضل‘‘(۱)

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل بیان محل وجوب الأذان‘‘: ج ۱، ص:۱۵۳۔
(۱) محمد بن إدریس الشافعي، الأم، ’’صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۰۔
(۲) التاج والإکلیل لمختصر خلیل، ’’فصل في حکم صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۳۔

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج۲، ص:۶۰۔
وإذا لم یکن للمسجد إمام ومؤذن راتب فلا یکرہ تکرار الجماعۃ، فیہ بأذان وإقامۃ بل ہو الأفضل ذکرہ قاضي خان، أما لوکان لہ إمام ومؤذن معلوم یکرہ تکرار الجماعۃ فیہ باذان وإمامۃ۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیری، ’’کتاب الصلاۃ: فصل أحکام المساجد‘‘: ص: ۵۳۰، دارالکتاب دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 492 تا 497

answered Jan 1 by Darul Ifta
...