33 views
دار العلوم وقف کی دار الحدیث میں دو مرتبہ جماعت کرنا:
(۱۴۵)سوال: دار العلوم وقف کی دارالحدیث میں ایک مرتبہ جماعت سے نماز ہوگئی اس کے بعد دوسری جماعت وہیں پر کرنا کیسا ہے بعض لوگ اس کو ناجائز کہتے ہیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد اویس قرنی، بنگال
asked Jan 1 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد اس جگہ کو کہتے ہیں جو جگہ مسجد کے لیے وقف کردی گئی ہو اور نماز باجماعت کے لیے خاص کردی گئی ہو اور وہاں پر نماز کی عام اجازت ہو، مسجد میں عام طور پر دو حصے ہوتے ہیں: ایک حصہ زمین وہ کہ جس کو نماز کے لیے متعین کرلیا جائے اس حصہ کو مسجد شرعی کہا جاتا ہے اور دوسرا حصہ وہ جو مسجد کی دیگر ضروریات کے لیے متعین کیا جاتا ہے مثلاً وضو خانہ جوتے نکالنے کی جگہ، امام مؤذن کے رہنے کی جگہ اور پانی کی ٹنکی اور ساز و سامان کی حفاظت کی جگہ اس وضاحت کے مطابق جو جگہ مسجد شرعی ہو اس کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو مساجد جو راستہ کی مساجد کہلاتی ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ ان مساجد کے نمازی متعین نہ ہوں کوئی محلہ وغیرہ ان سے مربوط نہ ہو، امام و مؤذن متعین نہ ہو وغیرہ۔ اور دوسری وہ مساجد جو محلہ کی مساجد کہلاتی ہیں جہاں نمازی بھی متعین ہوتے ہیں کہ عموماً اہل محلہ وہاں نماز پڑھتے ہیں، امام و مؤذن بھی متعین ہوتے ہیں۔ مذکورہ تفصیل کے مطابق محلہ کی جو مسجد ہو اس کے اس حصہ میں جو نماز کے لیے مخصوص ہو جماعت ثانیہ مکروہ تحریمی ہے جس کی اصل علت یہ معلوم ہوتی ہے کہ منشاء شریعت تکثیر جماعت ہے اور اگر بار بار جماعت ہو تو وہ تقلیل جماعت کا سبب ہوگا لوگوں کو چاہئے کہ وقت جماعت کی پابندی کریں جماعت کو اپنا پابند نہ کریں اور اگر کسی کی جماعت چھوٹ جائے اوراتنے لوگ ہوں کہ جماعت کی جاسکے تو مسجد شرعی کے حصہ کو چھوڑ کر کسی علاحدہ جگہ جماعت کرلینی درست ہے۔ پس مذکورہ وضاحت کے مطابق دارالعلوم وقف کی دارالحدیث نہ مسجد ہے نہ مسجد کے حکم میں ہے وہ جگہ مسجد کے لیے وقف ہی نہیں ہے لیکن جماعت میں ہر جگہ تکثیر مقصود ہے اس لیے بلا وجہ و بلا عذر پہلی جماعت ترک کرنا غلط ہے۔ اول جماعت کا اہتمام کرنا چاہئے لیکن اگر کسی کی جماعت چھوٹ جائے تو اسی دارالحدیث میں دوبارہ جماعت درست ہے۔ کوئی کراہت نہیں ہے۔(۱)
(۱) والمسجد إذا کان لہ إمام معلوم وجماعۃ معلومۃ في محلۃ فصلی أہلہ فیہ بالجماعۃ لایباح تکرارہا فیہ بأذان ثان۔ أما إذا صلوا بغیر أذان یباح إجماعاً وکذا في مسجد قارعۃ الطریق، کذا في شرح المجمع للمصنف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:  الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل في الجماعۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
من بنی مسجداً لم یزل ملکہ عنہ حتی یفرزہ عن ملکہ بطریقۃ ویأذن بالصلاۃ فیہ … أو أمرہم بالصلاۃ مطلقا ونوی الأبد ففي ہذین الوجہین صارت الساحۃ مسجداً لومات لایورث عنہ۔ وإما أن وقت الأمر بالیوم أو الشہر أو السنۃ ففي ہذا الوجہ لاتصیر الساحۃ مسجداً لومات یورث عنہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف: الباب الحادی عشر في المسجد ومایتعلق بہ، الفصل الأول فیما یصیر بہ مسجدا و في أحکامہ و أحکام ما فیہ‘‘: ج۱، ص: ۴۰۹، زکریا دیوبند)
ولأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ فیستعجلون فتکثر الجماعۃ، وإذا علموا أنہا لاتفوتہم یتأخرون فتقل الجماعۃ وتقلیل الجماعۃ مکروہ بخلاف المساجد التي علی قوارع الطرق۔ الخ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۱، ص: ۳۸۰، زکریا دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 499

 

answered Jan 1 by Darul Ifta
...