128 views
السلامُ علیکُم ورحمةالله برکاتہ مفتی صاحب.  بیوی حیض سے تھی ,بیوی نے شوہر کی شہوت ابھار دی ٹچ  وغیرہ کرکے ایسے میں شوہر کی شہوت ابھر گئ  اور شوہر ہمبستری نہیں کرسکا حیض کی وجہ سے, لیکن ایسے میں وہ بیت الخلاء مشت زنی کرنے چلا جاتا ہے حلانکہ وہ جب بیت الخلاء میں داخل ہوا تو دعا کے اہتمام کے ساتھ داخل ہوا لیکن نا چاہتے ہوۓ پھر بھی اس نے بیت الخلاء میں مشت زنی کر لیا تو کیا شوہر کے ایسا
?? کرنا سے کفر لاحق ہوا
asked Jan 1 in اسلامی عقائد by Shabab Ahmad

1 Answer

Ref. No. 2757/45-4289

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مشت زنی کرنے والوں کی انگلیاں قیامت کے دن گیابھن ہوں گی۔ میدانِ حشر میں تمام انسان اسے دیکھیں گے، سب کے سامنے اس کی رسوائی ہوگی۔   اس لئے اس  سے شوہر کو بچنا چاہئے اور  اپنے اوپر کنٹرول کرنا چاہئے، عورت کے بدن کے ساتھ رگڑنے وغیرہ کی اجازت ہے، نیز عام احوال میں بیوی سے  مشت زنی کرانا بھی  مکروہ ہے، لیکن اگر بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہو اور شوہر پر شہوت کا غلبہ ہو تو اس کی گنجائش ہے۔  تاہم مشت زنی سے آدمی کافر نہیں ہوتاہے۔

{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ

وله أن يقبلها ويضاجعها ويستمتع بجميع بدنها ما خلا ما بين السرة والركبة عند أبي حنيفة وأبي يوسف. هكذا في السراج الوهاج. (الفتاوى الهندية، كتاب  الطهارة، الباب السادس : الدماء المختصة  بالنساء، الفصل الرابع في الحيض، ج:1، ص:93)

(و) يمنع (وقربان ما تحت إزار) يعني ما بين سرة وركبة ولو بلا شهوة، وحل ما عداه مطلقا. (الدر المختار على صدر رد المحتار، كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:486)

أنه يجوز له أن يلمس بجميع بدنه حتى بذكره جميع بدنها إلا ما تحت الإزار فكذا هي لها أن تلمس بجميع بدنها إلا ما تحت الإزار جميع بدنه حتى ذكره۔ (رد المحتار، كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:487)

ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته، وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه۔ (رد المحتار،باب مايفسد الصوم وما لا يفسده، مطلب في حكم الاستمناء بالكف، ج:3، ص:371)

علامہ شہاب الدين محمود بن عبد الله حسينی آلوسی � (المتوفی: 1270ھ) روح المعانی میں مذکورہ آیت کے تحت لکھتے ہیں: ”فجمهور الأئمة على تحريمه وهو عندهم داخل فيما وراء ذلك، وكان أحمد بن حنبل يجيزه لأن المني فضلة في البدن فجاز إخراجها عند الحاجة كالفصد والحجامة … وعن سعيد بن جبير: عذب الله تعالى أمة كانوا يعبثون بمذاكيرهم، وعن عطاء: سمعت قوما يحشرون وأيديهم حبالى وأظن أنهم الذين يستمنون بأيديهم “(تفسیر ابن کثیر ،جلد نمبر 5،صفحہ نمبر 463، مطبوعہ: دار طيبة للنشر والتوزيع)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Jan 6 by Darul Ifta
...