41 views
خواتین کا مسجد میں جانا:
(۱۵۰)سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
آپ سے اہم دینی مسئلہ کے متعلق فتوی مطلوب ہے جو عوام الناس میں تشویش ناک صورت حال اختیار کررہا ہے وہ ہے کہ خواتین کا مسجدوں میں جانا عمومی اور خصوصی طور پر کہاں تک گنجائش ہے؟ جب کہ ہم طالب علم یہ جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں خواتین کا مسجد میں جانا فتنے کا سبب ہے اور دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ اصلاحی مجالس کے لیے خواتین کا مسجد میں جانا مختلف مساجد میں الگ الگ دنوں میں جمع ہونا درست ہے یا نہیں؟برائے کرم اس مسئلہ پر اطمینان بخش فتوی مرحمت فرما کر ممنون و مشکور ہوں۔
فقط: و السلام
المستفتی: نور محمد اشفاق قاسمی، ہندو پور
asked Jan 2 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین نماز کے لیے مسجد میں آیا کرتی تھیں؛ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اتفاق سے عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع کردیا گیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ بھی خیر القرون کا زمانہ تھا؛ لیکن اس زمانہ میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتنہ کے خوف سے عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع کردیا؛ اسی لیے حضرات فقہاء نے عورتوں کے لیے مسجد میں جماعت سے نماز کو مکروہ قرار دیا ہے۔ عبادات میں سب سے افضل اور اہم عبادت نماز ہے، جب عورتوں کو نماز کے لیے مسجد آناپسندیدہ نہیں ہے، تو دیگر اصلاحی پرو گراموں کے لیے آنا بھی پسندیدہ نہیں ہوگا۔ بہتر ہے کہ خواتین کا مسجد کے علاوہ کسی گھر یا مقام پر پروگرام کیا جائے، جہاں مردوں سے اختلاط نہ ہو۔ اور اگر عورتوں کے لیے مسجد میں علاحدہ نظم ہو جس میں کسی قسم کا اختلاط نہ ہو تو دینی پروگرام کرنے کی گنجائش ہے۔(۱)

(۱) إن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: لقد کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم …یصلي الفجر فیشہد معہ نسائٌ من المؤمنات متلفعات في مروطہن ثم یرجعن إلی بیوتہن ما یعرفہن أحد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب کم تصلي المرأۃ في الثیاب‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم: ۳۷۲)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تمنعوا نسائکم المساجد وبیوتہن خیرلہن۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ماجاء في خروج النساء إلی المسجد‘‘: ج ۱، ص:۸۳، رقم: ۵۶۷)
عن عبد اللّٰہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ المرأۃ في بیتہا أفضل من صلاتہا في حجرتہا وصلاتہا في حجرتہا أفضل من صلاتہا فيبیتہا۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب التشدید في ذلک‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم:۰ ۵۷)
وکرہ لہن حضور الجماعۃ إلا للعجوز في الفجر والمغرب والعشاء، والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل الصلوات لظہور الفساد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم: ج ۱، ص: ۱۴۶)
وأما بیان من تجب علیہ الجماعۃ فالجماعۃ إنما تجب علی الرجال العاقلین الأحرار القادرین علیہا من غیر حرج فلا تجب علی النساء۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجماعۃ، فصل بیان من تجب علیہ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۴)
والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل صلوات لظہور الفساد۔ (عالم بن العلاء، التاتار خانیۃ، کتاب الصلاۃ، باب الجماعۃ: ج ۱، ص: ۱۵۷)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص505

 

answered Jan 2 by Darul Ifta
...