الجواب وباللہ التوفیق: اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھے تو بیوی کو شوہر کے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ اگر بیوی اس کے دائیں یا بائیں محاذاۃ میں کھڑی ہوگئی تو نماز درست نہیں ہو گی۔
’’محاذاۃ المرأۃ الرجل مفسدۃ لصلاتہ ولہا شرائط: منہا) أن تکون المحاذیۃ مشتہاۃً تصلح للجماع ولا عبرۃ للسن وہو الأصح … (ومنہا) أن تکون الصلاۃ مطلقۃً وہي التي لہا رکوع وسجود … (ومنہا) أن تکون الصلاۃ مشترکۃً تحریمۃً وأدائً … (ومنہا) أن یکونا في مکان واحد … (ومنہا) أن یکونا بلا حائل … وأدنی الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظہ غلظ الأصبع والفرجۃ تقوم مقام الحائل وأدناہ قدر ما یقوم فیہ الرجل، کذا في التبیین۔ (ومنہا) أن تکون ممن تصح منہا الصلاۃ … (ومنہا) أن ینوی الإمام إمامتہا أو إمامۃ النساء وقت الشروع … (ومنہا) أن تکون المحاذاۃ في رکن کامل … (ومنہا) أن تکون جہتہما متحدۃ … ثم المرأۃ الواحدۃ تفسد صلاۃ ثلاثۃ واحد عن یمینہا وآخر عن یسارہا وآخر خلفہا ولا تفسد أکثر من ذلک۔ ہکذا في التبیین۔ وعلیہ الفتوی۔ کذا في التتارخانیۃ والمرأتان صلاۃ أربعۃ واحد عن یمینہما وآخر عن یسارہما واثنان خلفہما بحذائہما،وإن کن ثلاثا أفسدت صلاۃ واحد عن یمینہن وآخر عن یسارہن وثلاثۃ خلفہن إلی آخر الصفوف وہذا جواب الظاہر۔ ہکذا في التبیین‘‘(۱)
(۱) ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامہ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘:ج ۱، ص: ۱۴۶؛ وأحمد بن محمد، حاشیہ الطحطاوی علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ‘‘: ص: ۳۲۹، ط: قدیمی)
(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص513