الجواب وباللہ التوفیق:کوئی شخص صحیح اسلامی عقیدہ کا حامل ہو، شہادتین اور ارکان وواجبات اسلام نیز فرائض پر اعتقاد رکھتا ہو، آخرت و تقدیر کو برحق سمجھتا ہو تو وہ مسلمان ہے۔ عمداً حالت حدث میں نماز پڑھنے کے دو معنی ہیں؛ اگر اعتقاد یہ ہے کہ وضو نماز کی صحت کے لیے لازم اور ضروری نہیں ہے، تو اس شخص پر کفر عائد ہوجائے گا؛ اس لیے کہ نماز کے لیے وضو کا ہونا قرآن مقدس سے ثابت ہے(۱) اوراگر اعتقاد یہ ہے کہ نماز کے لیے وضو تو ضروری ہے اس کا پختہ عقیدہ ہے اس کے باوجود بغیر وضو نماز پڑھ لی تو یہ شخص انتہائی گناہگار ہے، گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے؛ البتہ شرعاً کافر نہیں ہے اس لیے کہ یہ عملاً نافرمانی ہے، اعتقاد اس کا صحیح ہے،(۱) اس شخص پر توبہ لازم ہے۔ مذکورہ شخص کی جو بھی مراد ہو کس نظریہ سے اس نے ایسا کیا ہے؟ اس سے معلوم کرلیا جائے کہ شریعت کا قاعدہ ہے اگر کسی شخص کے کفرمیں ننانوے احتمال ہوں اور ایک احتمال عدم کفر کا ہو یعنی اسلام کا ایک احتمال ہو تو احتمال اول کو ترک کرکے دوسرے احتمال ہی کو اختیار کیا جائے گا؛ پس بغیر تعیین کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا؛ البتہ یہ شخص بلا شبہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔(۲)
(۱){ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ ط} (سورۃ المائدہ: ۶)
الصلاۃ بلا طہر غیر مکفر، کصلاتہ لغیر القبلۃ أومع ثوب نجس وہو ظاہر المذہب کما في الخانیۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار،’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص:۱۸۵، ۱۸۶)
(۲) في الخلاصۃ وغیرہا إذا کان في المسئلۃ وجوہ توجب التکفیر ووجہ واحد یمنعہ فعلی المفتي أن یمیل إلی الوجہ الذي یمنع التکفیر تحسینا للظن بالمسلم۔ (ابن عابــدین، الـدر المختـار مع رد المحتار،’’کتاب الجہاد‘‘ باب المرتد،مطلب مایشک أنہ ردۃ لایحکم بہا‘‘:ج ۶، ص: ۳۵۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص 27