97 views
رکعات کی تعیین کہاں سے ثابت ہے؟
(۲)سوال:نماز پانچ وقت فرض ہے، لیکن یہ رکعات کی تعیین کہ فجر میں دو رکعت فرض ہے اور دو رکعت سنت ہے، ظہر میں چار رکعت فرض اور چار رکعت سنت ہے، عصر میں چار رکعت فرض اور چار سنت غیر مؤکدہ ہے، مغرب میں تین رکعت فرض اور دو سنت اور دو نفل ہے، عشاء میںکل سترہ رکعت ہے یہ کہاں سے ثابت ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: عبد الوہاب، سنت کبیر نگر،یوپی
asked Jan 3 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: یہاں دو مسئلے الگ ا لگ ہیں پہلے فرض نمازوں کی رکعات کی تعداد، پھر سنت رکعات کی تعداد۔ فرض نمازوں میں جو رکعات کی تعداد ہے وہ تواتر عملی سے ثابت ہے؛ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے آج تک اسی پرعمل ہوتا آرہا ہے۔ حضرت جبرئیل ؑ نے دو دن جو امامت کی اس کی رکعات کی تعداد یہی مذکور ہے۔ اس کے علاوہ بعض روایات میں صراحتاً بھی فرض نمازوں کی تعداد مذکور ہے؛ چناں چہ ایک روایت میں ہے:
’’عن أبي مسعود الأنصاري رضي اللّٰہ عنہ قال: جاء جبرائیل إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: قم فصل وذلک لدلوک الشمس حین مالت فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فصلی الظھر أربعا ثم أتاہ حین کان ظلہ مثلہ فقال: قم فصل فقام فصلی العصر أربعا ثم أتاہ حین غربت الشمس فقال لہ: قم فصل فقام فصلی المغرب ثلاثا ثم أتاہ حین غاب الشفق۔ فقال لہ: قم فصل فقام فصلی العشاء الآخرۃ أربعا ثم أتاہ حین طلع الفجر وأسفر الفجر فقال لہ: قم فصل! فقام فصلی الصبح رکعتین‘‘ (۱)
سنتوں کی جو تعداد ہے اس کا ثبوت بھی روایات سے ہے۔ بعض روایات میں بارہ رکعت پڑھنے کی بڑی فضیلت آئی ہے یہ بارہ رکعات سنت مؤکدہ کہلاتی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:  ۲؍رکعات فجر سے پہلے، ۴؍ رکعات ظہر سے پہلے اور ۲؍ رکعات ظہر کے بعد، ۲؍ رکعات مغرب کے بعد ۲؍ رکعات عشاء کے بعد۔
’’عن أم حبیبۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی في یوم ولیلۃ ثنتي عشرۃ رکعۃ بني لہ بیت في الجنۃ أربعا قبل الظھر ورکعتین بعدھا ورکعتین بعد المغرب ورکعتین بعد العشاء ورکعتین قبل الفجر صلاۃ الغداۃ‘‘(۲)
اس کے علاوہ متعدد روایات ہیں جن سے انفرادی طورپر سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ رکعات کی تعداد کا پتہ چلتا ہے؛ چناں چہ فجر کی دو رکعت کے سلسلے میں روایت ہے:
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: لم یکن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی شيء من النوافل أشد تعاھدا منہ علی رکعتي الفجر‘‘(۱)
ظہر کی چھ رکعت سنت مؤکدہ کے بارے میں روایت ہے:
’’عن أم حبیبۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی قبل الظھر أربعا وبعدھا أربعا حرمہ اللّٰہ تعالی علی النار‘‘(۲)
اس میں ظہر کے بعد چا ررکعت کا تذکرہ ہے جس میں دو سنت مؤکدہ او ردو سنت غیر مؤکدہ ہے۔ عصر کی چار رکعت سنت غیر مؤکدہ کے سلسلے میں روایت ہے:
’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: رحم اللّٰہ  إمرأ صلی قبل العصر أربعا‘‘(۳)
مغرب کی سنت مؤکدہ کے بارے میں روایت ہے:
’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال من رکع بعد المغرب أربع رکعات کان کالمعقب غزوۃ بعدغزوۃ‘‘(۴)
عشا سے پہلے کی چار رکعت سنت اور عشاء کے بعد چار رکعت سنت کے سلسلے میں روایت ہے:
’’عن سعید بن جبیر رضي اللّٰہ عنہما کانوا یستحبون أربع رکعات قبل العشاء الأخرۃ‘‘(۵)
اسی طرح تین رکعت وتر اور دو رکعت بعد الوتر کے سلسلے میں روایت ہے:
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یؤتر بثلاث یقرأ في أول رکعۃ بسبح اسم ربک الأعلی وفي الثانیۃ قل یا أیھا الکافرون وفي الثالثۃ قل ھواللّٰہ أحد والمعوذتین‘‘(۱)
’’عن أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي بعد الوتر رکعتین‘‘(۲)
(۱)  أخرجہ البیھقي في سننہ، ’’باب عدد رکعات الصلوات الخمس‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۱۔رقم: ۱۷۶۳
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، باب ماجاء في من صلی في یوم ولیلۃ ثنتی عشرۃ رکعۃ‘‘: ج۱، ص: ۹۴، رقم: ۴۱۵۔
(۱) أخرجہ الـبـخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التہجد، باب تعاھد رکعتي الفجر ومن سمّاہا تطوعًا‘‘: ج ۱، ص:۱۵۶، رقم ۱۱۶۹؛ وأخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب صلوۃ المسافرین وقصرہا‘‘ باب استحباب رکعتي سنۃ الفجر والحث علیھما الخ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۱، رقم: ۷۲۴۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ: باب اٰخر من سنن الظھر‘‘: ج ۱، ص: ۹۸، رقم: ۴۲۷۔
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ: باب ما جاء في الأربع قبل العصر‘‘: ج ۱، ص: ۹۸، رقم: ۴۳۰۔
(۴) أخرجہ عبدالرزاق، في مصنفہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب الصلاۃ فیمابین المغرب والعشاء‘‘: ج ۳، ص: ۴۵، رقم،۴۷۲۸۔
(۵) المروزي، مختصر قیام اللیل، ’’یصلي بین المغرب والعشاء أربع رکعات‘‘: ص: ۸۵۔

(۱) أخرجہ أبوجعفر، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۰؛ رقم:۱۶۹۵۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الوتر، باب ماجاء لا وتران فی لیلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸، رقم: ۴۷۱؛ وأخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب إقامۃ الصلوات والسنۃ فیہا، ماجاء في الوتر، باب ما جاء في الرکعتین بعد الوتر جالساً‘‘: ج ۱، ص: ۸۳، رقم: ۱۱۹۵
۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص 28تا 31

 

answered Jan 3 by Darul Ifta
...