الجواب وباللّٰہ التوفیق: نجاست کا جِرم اگر مکمل طور پر زائل ہوگیا ہے، تو صرف دھبہ کے باقی رہنے اور اس پر ہاتھ یا پیر کے مَس ہونے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا، اگر پیر پر چھونے سے کوئی نجاست نہ لگے یا ایک رکن کی ادائیگی کے بقدر اس پر ٹھہرا نہ رہے۔(۱)
(۱) إذا قام المصلي علی مکان طاہر ثم تحول إلی مکان نجس ثم عاد إلی الأول إن لم یمکث علی النجاسۃ مقدار ما یمکنہ فیہ أداء أدنی رکن جازت صلاتہ وإلا فلا …… إذا أراد أن یصلي علی أرض علیہا نجاسۃ فکبسہا بالتراب ینظر: إن کان التراب قلیلاً بحیث لو شمہ یجد رائحۃ النجاسۃ لا یجوز وإن کان کثیراً لا یجد الرائحۃ یجوز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث، في شروط الصلاۃ، الفصل الثاني: في طہارۃ مایستر بہ العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۹، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وفي القنیۃ: لو صلی علی زجاج یصف ما تحتہ قالوا جمیعاً یجوز۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۷۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص262