الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہم لوگ جہت (سمت) قبلہ کے مکلف ہیں اس میں اگر کچھ معمولی کمی زیادتی ہو جائے تب بھی نماز اداء ہو جاتی ہے، پس مذکورہ صورت میں نمازیں ادا ہو گئیں اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)
(۲) ولغیر المشاہد إصابۃ جہتہا البعید والقریب سواء (ولو بمکۃ) وحال بینہ وبین الکعبۃ بناء أو جبل (علی الصحیح) کما في الدرایۃ والتنجیس۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ص: ۲۱۳-۲۱۴، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)
ومن کان خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ وہو قول عامۃ المشائخ، وہو الصحیح ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث، في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، زکریا، دیوبند)
والأصح أن من بینہ وبینہا حائل کالغائب، وأقرہ المصنف قائلاً: والمراد بقولي ’’فللمکي‘‘ مکي یعاین الکعبۃ (ولغیرہ) أي غیر معاینہا إصابۃ جہتہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: مبحث في استقبال القبلۃ، ج۲، ص: ۱۰۸-۱۰۹، زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص268