40 views
عین کعبہ سے اڑتیس ڈگری منحرف مسجد میں نماز کا حکم:
(۲۴)سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
ایک مسجد جو مکمل تعمیر ہوچکی ہے اور کافی عرصے سے باجماعت نماز ہورہی ہے؛ لیکن مسجد کا رخ عین کعبہ سے اڑتیس ڈگری دائیں جانب منحرف ہے، اگر عین کعبہ سے اڑتیس ڈگری منحرف رخ پر صفوں کو باقی رکھیں، تو مسجد کو زیادہ توڑ پھوڑ اور نقصان سے بچایا جاسکتاہے او رمسجد کی خوبصورتی بھی کسی حد تک باقی رہے گی، ایسی صورت میں رخ مسجد کو عین کعبہ سے اڑتیس ڈگری یا کچھ کم وبیش منحرف درست کرکے نماز پڑھنا بلاکراہت درست ہوگا یا نہیں؟
(۱) عین کعبہ سے دائیں یا بائیں منحرف ہونے کی حد کتنی ڈگری ہے جس حد تک نماز پڑھنا بلا کراہت درست ہو؟
(۲) اگر نماز صحیح ہوجائے گی، تو فرش کا پتھر موجودہ رخ پر ہی لگایا جائے یا دوسری پرانی مساجد یا قبلہ نما کے مطابق کرلیا جائے ۔
(۳) مسجد کے رخ کی پیمائش کمپاس کے ذریعہ کی گئی ہے اور شریعت میں کمپاس کا اعتبار نہیں ہے، تو رخ کی پیمائش کرنے کی کیا صورت ہوگی۔
(۴) اگر قدیم مساجد کے رخ پر مسجد کا رخ کردیں، تو قدیم مساجد سے مراد کتنی قدیم ہو وضاحت فرمادیں نوازش ہوگی؟
فقط: والسلام
المستفتی: انتظامیہ بلال مسجد ککرالہ، بدایوں
asked Jan 13 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) سمت قبلہ کی تعیین اور تعمیر مساجد کے سلسلے میں صحابہؓ و تابعین سے لے کر آج تک طریقہ یہ ہے کہ جس شہر میں پرانی مسجدیں مسلمانوں کی تعمیر کردہ موجود ہوں انھیں کے مطابق نئی مساجد تعمیر کرلی جائیں، ایسی جگہوں میں آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ کی باریکیوں میں پڑنا خلاف سنت اور نامناسب ہے؛ اس لیے آپ اپنے آس پاس کی پرانی مسجدوں کے مطابق اپنی مسجد کا قبلہ طے کرلیں۔ آلات جدیدہ پر کلی اعتماد نہ کریں کمپاس یا قبلہ نما کی تعیین کاکلی اعتبار نہیں ہے، ہاں اس سے آپ مدد لے سکتے ہیں فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
(۲) اگر عین قبلہ سے پینتالیس ڈگری سے کم انحراف ہو، تو نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن جان بوجھ کر انحراف رکھنا درست نہیںہے۔
(۳) اگر واقعی مسجد جہت قبلہ سے منحرف ہے، تو مسجد کو از سر نو توڑ پھوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ صفیںاس طرح لگادی جائیں کہ تمام صفوں کا رخ جہت قبلہ کی طرف ہوجائے۔
(۴) جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قدیم ترین مسجد کو معیار بنایا جائے، لیکن اس کی کوئی حتمی تعیین نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ شہر میں جو سب سے قدیم مسجد ہو اس کو معیار بنالیا جائے۔
’’فللمکي إصابۃ عینہا  ولغیرہ أي: غیر معاینہا إصابۃ جہتہا بأن یبقي شيء من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ أو لہوائہا، بأن یفرض من تلقاء وجہ مستقبلہا حقیقۃ في بعض البلاد الخ قال الشامي: فیعلم منہ أنہ لو انحرف عن العین انحرافاً لاتزول منہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز، ویؤیدہ ما قال في الظہیریۃ: إذا تیامن أو تیاسر تجوز؛ لأن وجہ الإنسان مقوس، لأن عند التیامن أو التیاسر یکون أحد جوانبہ إلی القبلۃ‘‘ (۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، بحث في استقبال القبلۃ:ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ: زکریا دیوبند۔
اتفقوا علی أن القبلۃ في حق من کان بمکۃ عین الکعبۃ، فیلزمہ التوجہ إلی عینہا، کذا في فتاویٰ قاضي خان … ومن کان خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ، وہو قول عامۃ المشائخ، ہو الصحیح ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث، في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، مکتبہ زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص272

 

answered Jan 14 by Darul Ifta
...