23 views
ناپاک پانی سے وضو کر کے نماز پڑھنے کا حکم:
(۳۱)سول: کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ ایک شخص نے نوافل اور فرائض کی نماز ادا کی مگر اس نے وضو جس پانی سے کیا تھا وہ پانی ناپاک تھا، کیا اس شخص کے اوپر نفل اور فرائض وواجبات کی قضاء لازم ہوگی؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد یحییٰ، مدنپورہ، وارانسی
asked Jan 13 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں ناپاک پانی سے وضو بناکر جو نوافل شروع کی گئی ہیں تو ان کا شروع کرنا ہی متحقق نہیں ہوا اورتحریمہ منعقد نہیں ہوئی اس لیے ان کی قضاء واجب نہیں ہوگی بخلاف فرائض وواجبات کے، اس لیے کہ وہ اصل سے ہی فرض اور واجب ہے، لہٰذا اس کی قضا بھی ضروری ہوگی۔(۱)

(۱) ولزم نفل شرع فیہ بتکبیرۃ الإحرام أو بقیام الثالثۃ شروعاً صحیحاً قصداً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاۃ الحاجۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۴،۴۷۵)
(أما) شرائط أرکان الصلاۃ: (فمنہا) الطہارۃ بنوعیہا من الحقیقیۃ والحکمیۃ، والطہارۃ الحقیقیۃ ہي طہارۃ الثوب والبدن ومکان الصلاۃ عن النجاسۃ الحقیقیۃ، والطہارۃ الحکمیۃ ہي طہارۃ أعضاء الوضوء عن الحدث، وطہارۃ جمیع الأعضاء الظاہرۃ عن الجنابۃ۔
(أما) طہارۃ الثوب وطہارۃ البدن عن النجاسۃ الحقیقیۃ فلقولہ تعالٰی: {وثیابک فطہر} المدثر: ۴)، وإذا وجب تطہیر الثوب فتطہیر البدن أولی۔
(وأما) الطہارۃ عن الحدث والجنابۃ فلقولہ تعالٰی: {یا أیہا الذین آمنوا إذا قمتم إلی الصلاۃ فاغسلوا وجوہکم} (المائدۃ: ۶) إلی قولہ: {لیطہرکم} (الأنفال: ۱۱)
وقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا صلاۃ إلا بطہور،  وقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا صلاۃ إلا بطہارۃ، وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مفتاح الصلاۃ الطہور۔ وقولہ تعالٰی: {وإن کنتم جنباً فاطہروا} (المائدۃ: ۶) وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تحت کل شعرۃ جنابۃ ألا فبلوا الشعر وأنقوا البشرۃ، والإنقاء ہو التطہیر، فدلت النصوص علی أن الطہارۃ الحقیقیۃ عن الثوب والبدن، والحکمیۃ شرط جواز الصلاۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع’’کتاب الصلاۃ، بیان شرائط أرکان الصلاۃ، ج۱، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)
وحدیث رفع عن أمتي الخطأ محمول علی رفع الإثم۔ (قولہ: رفع عن أمتي الخطأ) قال في الفتح: ولم یوجد بہذا اللفظ في شيء من کتب الحدیث، بل الموجود فیہا: إن اللّٰہ وضع عن أمتي الخطأ والنسیان وما استکرہوا علیہ، رواہ ابن ماجۃ وابن حبان والحاکم، وقال: صحیح علی شرطہما ح ، (قولہ: علی رفع الإثم) وہو الحکم الأخروي، فلا یراد الدنیوي وہو الفساد؛ لئلا یلزم تعمیم المقتضی، ح عن البحر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في الفرق بین السہو والنسیان‘‘: ج۲، ص: ۳۷۱، ۳۷۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص2282

answered Jan 14 by Darul Ifta
...