20 views
غیر نمازی کا نمازی کو قبلہ کے سلسلہ میں تنبیہ کرنا:
(۳۳)سوال: ایک شخص چلتی ٹرین یا کار میں نماز پڑھ رہا تھا جب وہ مڑی تو ایک دوسرے شخص نے آواز دی کہ قبلہ بدل گیا تو اس نمازی کو دوسرے شخص کے کہنے پر قبلہ کی طرف منھ کرلینا چاہئے یا نہیں؟ اور دوسرے شخص کو قبلہ بدل جانے کی اطلاع کرنی چاہئے تھی یا نہیں؟ شبہ یہ ہوتا ہے کہ اگر نمازی نے غیر نمازی کی بات پر عمل کیا توشاید نماز صحیح نہ ہوگی؟
فقط: والسلام
المستفتی: امیرالدین، گورکھپور
asked Jan 13 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی صورت میں جب کہ کوئی شخص نمازی کو تبدیلی سمت قبلہ پر متنبہ کرے تو نمازی کو کچھ توقف کرکے اپنی رائے سے سمت قبلہ کی طرف گھوم جانا چاہئے تاکہ اس کی نماز درست ہوجائے اور اگر غیر نمازی کے کہنے پر فوراً (بغیر توقف کئے) گھوم گیا تو ’’استمداد عن الغیر‘‘ کی بناء پر اس کی نماز نہیںہوگی۔ دوبارہ پڑھنی ضروری ہوگی۔(۱)
(۱) لو جذبہ آخر فتأخر الأصح لا تفسد صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۳)
وإن اشتبہت علیہ القبلۃ ولیس بحضرتہ من یسأل عنہا اجتہد وصلّی کذا في الہدایۃ، فإن علم أنہ أخطأ بعد ما صلی لا یعیدہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، مکتبہ اتحاد)
وقید بالتحري لأن من صلّی ممن اشتبہت علیہ بلا تحرّ فعلیہ الإعادۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب شروط الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۱، مکتبہ زکریا دیوبند)
وإن شرع بلا تحرّ لم یجز وإن أصاب لترکہ فرض التحري، إلا إذا علم إصابتہ بعد فراغہ فلا یعید اتفاقًا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب إذا ذکر في مسألۃ ثلاثۃ أقوال‘‘: ج۲، ص: ۱۱۹، دار الکتاب دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص284



 

answered Jan 14 by Darul Ifta
...