22 views
بغیر تکبیر تحریمہ کے اقتداء کرنا:
(۳۵)سوال: اگر امام صاحب رکوع میں یاسجدے میں ہوں تو تکبیرِ تحریمہ کہہ کر رکوع یا سجدے میں جائے، یا  بغیر تکبیرِ تحریمہ کہے جائے؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد سعدان، کرناٹک
asked Jan 13 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: تکبیر تحریمہ امام و مقتدی سب پر ہرحال میں فرض ہے  اس لیے مقتدی جس وقت جماعت میں شریک ہو، تکبیر تحریمہ کھڑے ہوکر کہے پھر امام جس رکن میں ہو اس میں شریک ہوجائے۔ جس کو تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع مل گیا اس کو رکعت مل گئی اور جس کو تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد رکوع میں امام کے ساتھ شرکت نہیں مل سکی اس کی وہ رکعت فوت ہوگئی۔ بہرحال تکبیر تحریمہ کہہ کر ہی رکوع وسجدہ میں جانا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی۔
’’(من فرائضہا) التي لا تصح بدونہا (التحریمۃ) قائما (وہي شرط) قال الشامي: (قولہ من فرائضہا) جمع فریضۃ أعم من الرکن الداخل الماہیۃ والشرط الخارج عنہا، فیصدق علی التحریمۃ والقعدۃ الأخیرۃ والخروج بصنعہ علی ما سیأتی، وکثیرا ما یطلقون الفرض علی ما یقابل الرکن کالتحریمۃ والقعدۃ، وقدمنا في أوائل کتاب الطہارۃ عن شرح المنیۃ أنہ قد یطلق الفرض علی ما لیس برکن ولا شرط کترتیب القیام والرکوع والسجود والقعدۃ، وأشار بمن التبعیضیۃ إلی أن لہا فرائض أخر کما سیأتي في قول الشارح: وبقي من الفروض إلخ أفادہ ح (قولہ التي لا تصح بدونہا) صفۃ کاشفۃ إذ لا شيء من الفروض ما تصح الصلاۃ بدونہ بلا عذر‘‘(۱)
’’(الفصل الأول في فرائض الصلاۃ) وہي ست: (منہا التحریمۃ) وہي شرط عندنا حتی أن من یحرم للفرائض کان لہ أن یؤدی التطوع ہکذا في الہدایۃ، ولکنہ یکرہ لترک التحلل عن الفرض بالوجہ المشروع، وأما بناء الفرض علی تحریمۃ فرض آخر فلا یجوز إجماعا وکذا بناء الفرض علی تحریمۃ النفل کذا في السراج الوہاج … الی قولہ … ولا یصیر شارعا بالتکبیر إلا في حالۃ القیام أو فیما ہو أقرب إلیہ من الرکوع۔ ہکذا في الزاہدي حتی لو کبر قاعدا ثم قام لا یصیر شارعا في الصلاۃ: ویجوز افتتاح التطوع قاعدا مع القدرۃ علی القیام۔ کذا في محیط السرخسي‘‘(۱)
’’(قولہ فوقف) وکذا لو لم یقف بل انحط فرفع الإمام قبل رکوعہ لا یصیر مدرکا لہذہ الرکعۃ مع الإمام فتح. ویوجد في بعض النسخ: فوقف بلا عذر أي بأن أمکنہ الرکوع فوقف ولم یرکع، وذلک لأن المسألۃ فیہا خلاف زفر؛ فعندہ إذا أمکنہ الرکوع فلم یرکع أدرک الرکعۃ لأنہ أدرک الإمام فیما لہ حکم القیام۔ (قولہ لأن المشارکۃ) أي أن الاقتداء متابعۃ علی وجہ المشارکۃ ولم یتحقق من ہذا مشارکۃ لا في حقیقۃ القیام ولا في الرکوع فلم یدرک معہ الرکعۃ إذ لم یتحقق منہ مسمی الاقتداء بعد‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قد یطلق الفرض علی ما یقابل الرکن‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۷، ۱۲۸۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ  ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۵،۱۲۶۔
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب إدراک الفریضۃ‘‘: مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش، ج ۲، ص: ۵۱۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص286

 

answered Jan 14 by Darul Ifta
...