80 views
خون لگے ہوئے ٹیشو پیپر کو جیب میں رکھ کر نماز پڑھنا:
(۳۷) سوال: کیا فرماتے ہیں حضرات علمائے دین ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں: ناک میں چوٹ لگنے کی وجہ سے میری ناک سے خون نکلا میں نے اس کو ٹیشو پیپر سے صاف کیا اور وہ ٹیشو پیپر جیب میں رکھ کر بھول گیا وہ ٹیشو پیپر جیب ہی میں تھا کہ میں اسی حالت میں نماز پڑھ لی، تو وہ ٹیشو پیپر جس میں خون لگا ہوا تھا جیب میں رہنے کی وجہ سے میری نماز ہوئی یا نہیں؟ نیز اگر پیشاب ٹیسٹ کرانے کی غرض سے بوتل میں پیشاب رکھ کر ڈاکٹر کے پاس جانا تھا اسی درمیان نماز کا وقت ہو گیا میں وہ بوتل جیب میں رکھ کر نماز پڑھ لیا اس کے بعد ایک کی صاحب سے میں نے پوچھا تو وہ بول رہے ہیں کہ جیب میں پیشاب کی شیشی رکھ کر نماز نہیں ہوئی، براہ کرم دونوں مسئلہ کا حل بتا کر ممنون فرمائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد نسیم الدین، گلبرگہ، کرناٹک
asked Jan 14 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب و باللّٰہ التوفیق: شریعت مطہرہ میں خون ناپاک اور نجس ہے آپ کی ناک میں چوٹ لگنے سے جو خون نکلا اور آپ نے ٹیشو پیپر سے پونچھ کر جیب میں رکھ لیا اور جیب میں رکھنے کی حالت میں آپ نے نماز پڑھ لی اس سلسلے میں ایک اصول یاد رکھیں کہ: اگر دستی رومال یا ٹیشو پیپر وغیرہ میں ایک درہم یا اس سے زائد خون لگا ہوا ہے اور اسی حالت میں اس کو جیب میں رکھ کر نماز پڑھ لی گئی تو وہ نماز درست نہیں ہوگی نماز فاسد ہوگئی اس نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے اور اگر خون ایک درہم سے کم لگا ہوا ہو اور وہ کپڑا یا ٹیشو پیپر جیب ہی میں ہے اور نماز پڑھ لی گئی ہو تو نماز ادا ہو جائے گی۔
’’لو حمل نجاسۃ مانعۃ فإن صلاتہ باطلۃ فکذا لوکانت النجاسۃ في طرف عمامتہ أو مندیلہ المقصود ثوب ہو لابسہ فألقی ذلک الطرف علی الأرض وصلی فإنہ إن تحرک بحرکتہ لا یجوز وإلا یجوز؛  لأنہ بتلک الحرکۃ ینسب لحمل النجاسۃ وفي الظہیریۃ‘‘(۱)
’’وإذا صلی وہو لابس مندیلاً أو ملائۃ وأحد طرفیہ فیہ نجس والطرف الذي فیہ النجاسۃ علی الأرض فکان النجس یتحرک بتحرک المصلي لم تجز صلاتہ، وإن کان لا یتحرک تجوز صلاتہ؛ لأن في الوجہ الأول مستعمل للنجاسۃ وفي الوجہ الثاني‘‘(۲)

ایسے ہی شیشی یا بوتل جس میں پیشاب ہو اس کو جیب میں رکھ کر نماز پڑھنے سے نماز ادا نہیں ہوگی اس لیے کہ حامل نجاست کی نماز درست نہیں ہوتی ہے آپ دوبارہ اس نماز کا بھی اعادہ کریں جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے:
’’رجل صلی وفي کمہ قارورۃ فیہا بول لا تجوز الصلاۃ سواء کانت ممتلئۃ أو لم تکن لأن ہذا لیس في مظانہ ومعدنہ بخلاف البیضۃ المذرۃ لأنہ في معدنہ ومظانہ وعلیہ الفتوی کذا في المضمرات‘‘(۳)
’’ولو صلی وفي کمہ قارورۃ مضمومۃ فیہا بول لم تجز صلاتہ؛ لأنہ في غیر معدنہ ومکانہ‘‘(۱)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۴۔
(۲) أبوالمعالي برہان الدین محمود، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الرابع في فرائض الصلاۃ وسننہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۱۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثاني في طہارۃ یستر بہ العورۃ وغیرہ، ومما یتصل بذلک‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۹، ۳۹۸۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص289

answered Jan 14 by Darul Ifta
...