21 views
نماز کی درستگی کے لیے امام کا  مقتدی کی نیت کرنا ضروری ہے یا نہیں؟
(۳۹)سوال: امام کو نماز میں اپنی ہی نیت کرنی ہے یا مقتدیوں کی بھی نیت کرنی پڑے گی؟ نیز مقتدی کس کی نیت کریں اور اگر وہ اپنی نیت کریں نہ کہ امام کی تو ان کی نماز درست ہے یا نہیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: عبد الکریم، کشمیری
asked Jan 14 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہتر یہ ہے کہ امام اپنی اور اپنے مقتدیوں کی نیت کرے اگر امام نے مرد مقتدیوں کی نیت نہ کی تو بھی نماز درست ہوگی؛ لیکن اگر عورتیں اقتداء کر رہی ہوں، تو ان کی نماز کی درستگی کے لیے امام کا نیت کرنا ضروری ہے۔ مقتدیوں کا اپنے امام کی اقتداء کی نیت کرنا ضروری ہے، اس کے بغیر مقتدیوں کی نماز درست نہ ہوگی۔(۱)

(۱) قولہ: (وینوي المقتدي) أما الإمام فلا یحتاج إلی نیۃ الإمامۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: مطلب في حضور القلب والخشوع، ج ۲، ص: ۹۸، زکریا دیوبند)
و الإمام ینوي ما ینوي المنفرد ولا یحتاج إلی نیۃ الإمامۃ حتی لو نوی أن لا یؤم فلاناً فجاء فلان واقتدی بہ جاز ہکذا في فتاویٰ قاضي خان، ولا یصیر إماماً للنساء إلا بالنیۃ ہکذا في ’’المحیط‘‘۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:  الفصل الرابع   في النیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۴، زکریا دیوبند)
 وینوي المقتدي المتابعۃ لم یقل أیضاً: لأنہ لو نوی الاقتداء بالإمام أو الشروع في صلاۃ الإمام ولم یعین الصلاۃ صح في الأصح وإن لم یعلم بہا لجعلہ نفسہ تبعاً لصلاۃ الإمام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب شروط الصلاۃ‘‘: مطلب في حضور القلب والخشوع، ج ۲، ص: ۹۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص293

answered Jan 14 by Darul Ifta
...