42 views
نفل کی نیت سے جمعہ پڑھنے کے بعد جمعہ پڑھانا:
(۴۱)سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: ڈیڑھ بجے ایک مسجد میں جمعہ ہو رہا تھا زید نفل کی نیت سے جماعت میں شریک ہو گیا پھر زید نے دو بجے دوسری مسجد میں جمعہ پڑھایا، زید کو پہلے سے معلو م تھا کہ دو بجے جمعہ پڑھانا ہے اسی لیے پہلی جماعت میں شریک ہوتے ہوئے فرض کی نیت نہیں کی؛ بلکہ قصداً نفل کی نیت کی، تو زید کے پہلی جماعت میں شریک ہونے پر نفل اوردوسری نماز پڑھانے پر جمعہ درست ہوا یا نہیں؟
ایک مفتی صاحب یہ کہتے ہیںکہ رمضان میں اگر کوئی دوسرے روزے کی نیت کرے تو بھی رمضان ہی کا روزہ ادا ہوتاہے؛ اس لیے مذکورہ صورت میں جب پہلی نماز پڑھی تو اس میں نفل کی نیت معتبر نہیں؛ بلکہ پہلی نماز جمعہ کی ہی ہوئی اوردوسری نماز نفل ہوئی اس لیے دوسری نماز میں مقتدیوں کی نماز درست نہیں ہوئی، کیا رمضان پر یہ قیاس درست ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد ناظم ،غازی آباد
asked Jan 14 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز اور تمام عبادات میں نیت فرض ہے، بغیر نیت کے نماز نہیں ہوتی ہے اور فرض نمازمیں یا جمعہ کی نماز میں فرض کی نیت اور جمعہ کی نیت کرنا فرض ہے اگرکوئی جمعہ میںفرض کی نیت نہیں کرتا ہے یاجمعہ کی نیت نہیں کرتا ہے تو اس کی جمعہ کی نماز نہیں ہوگی؛ لہٰذا زید کی پہلی نماز جمعہ کی نہیں ہوئی؛ بلکہ نیت کے مطابق نفل ہوئی اورجمعہ کی دوسری نمازجو انہوں نے پڑھائی ہے وہ صحیح ہے۔
’’(قولہ النیۃ عندنا شرط مطلقا) أي في کل العبادات باتفاق الأصحاب‘‘(۱)
’’(ولا بد من التعیین عند النیۃ) ۔۔۔۔ وفي الأشباہ: ولا یسقط التعیین بضیق الوقت لأنہ لو شرع فیہ منتقلا صح وإن کان حراماً  (قولہ عند النیۃ) أي سواء تقدمت علی الشروع أو قارنتہ، فلو نوی فرضا معینا وشرع فیہ نسي فظنہ تطوعا فأتمہ علی ظنہ فہو علی ما نوی کما في البحر‘‘(۲)
’’مطلق الصلاۃ ینصرف إلی النفل‘‘(۳)

حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے جس سے اس مسئلے پر بھی روشنی پڑتی ہے، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ کر اپنی قوم میں جاکر عشاء کی نماز پڑھا تے تھے، اس حدیث کی بنا پر حضرات شوافع یہ کہتے ہیں پہلی نماز فرض تھی اور دوسری نماز نفل تھی جب کہ احناف کی رائے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ نفل کی نیت سے نماز پڑھتے تھے اورپھر لوگوں کو فرض پڑھا تے تھے۔ علامہ عینیؒ اور علامہ کشمیریؒ نے اسی کوراجح قرار دیا ہے کہ ان کی پہلی نماز نفل تھی۔
’’الثاني: أن النیۃ أمر مبطن لا یطلع علیہ إلا بإخبار الناوی، ومن الجائز أن یکون معاذ کان یجعل صلاتہ معہ  صلی اللّٰہ علیہ وسلم، بنیۃ النفل لیتعلم سنۃ القراء ۃ ‘‘(۱)
’’حتی انہم اختلفوا في أن أیا من صلاتیہ تقع عن الفریضۃ: فقال بعضہم: إن الفریضۃ تسقط بأولی صلاتیہ۔ وقال آخرون: بل تسقط بأکمل منہما، ولا یحکم علی إحداہما بتا، کما في ’’الموطأ‘‘ عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ لما سئل عن ذلک فوضہ إلی اللّٰہ‘‘(۲)
’’وإذا تقرَّر ہذا، لم یبقَ بیننا وبین الشافعیۃ خلاف في صلاۃ معاذ رضي اللّٰہ عنہ، إلا أنہم قالوا: إن أولی صلاتیہ کانت فریضۃً والأخری نافلۃ، وقلنا بعکسہ۔ وحینئذٍ اعْتَدَلْنَا ککفتی المیزان، لا مزیۃ لہم علینا، لأن ما ادعوہ من باب الرجم بالغیب، فمن أین علموا أن صلاۃ معاذ رضي اللّٰہ عنہ خلف النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کانت ہي الفریضۃ ولا یعلم حال النیۃ إلا من قبلہ، وما لم یبین ہو بنفسہ، فجعل أولی صلاتیہ فریضۃ تحکم، لم لا یجوز أن تکون تلک نافلۃ والأخری بعکس ما قلتم؟
فإن قلت: إن معاذا رضي اللّٰہ إذا نوی العشاء أول مرۃ علی ما قلتم، وقع عن فریضۃ لا محالۃ۔ قلت: کلا، فإنک قد علمت في مفتتح الکلام أن الفریضۃ تحتاج إلی نیۃ زائدۃ علی أصل الصلاۃ، وہي نیۃ وصف الفرضیۃ، فإنہ یتضمن أمرین: الصلاۃ، وذلک الوصف۔ فإذا أطلق في النیۃ ولم ینو ہذا الوصف، لا تقع إلا نافلۃ، ولعل صلاۃ معاذ رضي اللّٰہ عنہ مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانت لإحراز فضیلۃ جماعۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلّم وصلاتہ في قومہ کانت لإسقاطہا عن ذمتہ، بل ہو الظاہر علی أصلنا۔ فإنہ کان إمام قومہ، فلا بد أن ینوي صلاۃ یصح اقتداؤہم بہ، وذلک علی ما قلنا۔ ولسنا ندعی أنہ کان یفعل کذلک؛ بل نقول: إنا نتوازن في الفعال حذو المثقال، ولا نرضی بخطۃ عسف‘‘(۱)

یہ مسئلہ اس قبیل سے نہیں ہے کہ نیت نفل کی کرے اور ادا فرض ہوجائے۔ علامہ حمویؒ نے ان مسائل کی جن میں نیت کے برخلاف عبادت کا تحقق ہوتا ہے اس کی فہرست دی ہے اور اس کے حصر کا دعوی کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ونقض الحموی الحصر بمسائل ینوی فیہا خلاف ما یؤدي منہا ما لو طاف بنیۃ التطوع في أیام النحر وقع عن الفرض، وما لو صام یوم الشک تطوعاً فظہر أنہ من رمضان کان منہ، وما لو تہجد برکعتین فظہر أن الفجر طالع ینوبان عن سنۃ الفجر۔ وما لو صام عن کفارۃ ظہار أو إفطار فقدر علی العتق یمضي في صوم النفل۔ وما لو نذر صوم یوم بعینہ فصامہ بنیۃ النفل یقع عن النذر کما في جامع التمرتاشی‘‘(۲)
مفتی صاحب کو بظاہر مغالطہ ہواہے،نماز کے مسئلہ کو رمضان پر قیاس کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ رمضان روزہ کے لیے معیار ہے اور روزہ کا پورا وقت روزہ میں ہی مصروف رہتا ہے؛ اس لیے رمضان میں رمضان کے روزہ کے علاوہ کوئی روزہ درست ہی نہیں ہے، رمضان کا روزہ ہی متعین ہے اور متعین کے لیے تعیین کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے نفس روزہ کی نیت سے بھی رمضان کاروزہ ادا ہو جاتا ہے اور نفل کی نیت سے بھی رمضان کا ہی روزہ ادا ہوتا ہے؛ لیکن نماز میں وقت نماز کے لیے ظرف ہے جس میں فرض نماز کی ادائیگی کے بعد بھی وقت بچتا ہے؛ اس لیے یہاں پر فرض کی نیت کے ساتھ تعیین کی بھی ضرورت ہوتی ہے حتی کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر وقت میں تنگی ہو اور صرف فرض ادا ہو سکتا ہو اس وقت میں بھی اگر کسی نے نفل کی نیت کرلی، تو اس کی نفل نماز درست ہوجائے گی ،اگرچہ اس کے لیے ایسا کرنا درست نہیں ہے معلوم ہوا کہ نماز کو رمضان پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔
’’(قولہ: وبمطلق النیۃ) أي من غیر تقیید بوصف الفرض أو الواجب أو السنۃ لأن رمضان معیار لم یشرع فیہ صوم آخر فکان متعینا للفرض والمتعین لا یحتاج إلی التعیین والنذر المعین معتبر بإیجاب اللّٰہ تعالی فیصام کل بمطلق النیۃ إمداد‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، فر وع في النیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب‘‘: ج ۲، ص: ۹۵،
(۳) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۰۔
(۱) بدرالدین عیني، عمدۃ القاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب إذا طول الإمام‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۶، دار إحیاء التراث العربي بیروت۔
(۲) الکشمیري، فیض الباري، کتاب الصلاۃ: باب إذا طول الإمام وکان للرجل حاجۃ فخرج فصلیٰ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۵،  شیخ الہند، دیوبند۔
(۱) الکشمیري، فیض الباري، کتاب الصلاۃ: باب إذا طول الإمام وکان للرجل حاجۃ فخرج فصلیٰ‘‘ج ۲، ص: ۲۸۷۔
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، فر وع في النیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۱، ۱۲۲۔
(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصوم‘‘: ج ۳، ص: ۳۴۱، ۳۴۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص295

 

answered Jan 14 by Darul Ifta
...