89 views
امام کے لیے امامت کی نیت کرنا:
(۴۳)سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: نماز میں نیت کرنا فرض ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نماز کی نیت کرے گا؛ لیکن اگر کوئی شخص امام ہو تو کیا اس کے لیے نماز کی نیت کے ساتھ ساتھ امامت کی نیت کرنا بھی ضروری ہے یا صرف نماز کی نیت کافی ہے؟ کیا اس سلسلے میں مردو عورت کے اعتبار سے کوئی فرق پڑتا ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی:زید، عادل آباد
asked Jan 14 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں نیت کرنا فرض ہے اس کے بغیر نماز درست نہیں ہوگی؛ لیکن امامت کی علاحدہ نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔ بغیر امامت کی نیت کے بھی مقتدیوں کی نماز درست ہوگی؛ البتہ نیت کرنے پر اس کو امامت کا ثواب بھی ملے گا ہاں اگر عورت بھی اقتدا کررہی ہو تو عورتوں کی امامت کی نیت کرنا ضروری ہے اگر امام نے عورتوں کی امامت کی نیت نہیں کی تو عورتوں کی نماز درست نہ ہوگی۔

’’والإمام ینوی صلاتہ فقط، ولا یشترط لصحۃ الاقتداء نیۃ إمامۃ المقتدی بل لنیل الثواب عند اقتداء أحد بہ الخ‘‘(۱)
ولا یحتاج الإمام في صحۃ الاقتداء بہ إلی نیۃ الإمامۃ حتی لو شرع علی نیۃ الإنفراد فاقتدی بہ یجوز إلا في حق جواز اقتداء النساء بہ فإن اقتدائہن بہ لایجوز مالم ینو أن یکون إماما لہن أو لمن تبعہ عموما‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب مضیٰ علیہ سنوات وہو یصلي الظہر قبل وقتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۳، ۱۰۴، ط: مکتبہ زکریا دیوبند۔
(۲) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي، شرح منیۃ المصلي، ’’کتاب الصلاۃ: الشرط السادس النیۃ ‘‘: ص:۲۱۹۔
وإن أم نساء فإن اقتدت بہ المرأۃ محاذیۃ لرجل في غیر صلاۃ جنازۃ فلا بد لصحۃ صلاتہا من نیۃ  إمامتہا … وإن لم تقتد محاذیۃ اختلف فیہ فقیل یشترط وقیل لا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب مضیٰ علیہ سنوات وہو یصلي الظہر قبل وقتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۴، زکریا دیوبند)
ولا یصیر إماماً للنساء إلا بالنیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ’’کتاب الصلاۃ:  الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۴، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص233

answered Jan 14 by Darul Ifta
...