الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے لیے نیت فرض ہے اور فرض نمازوں میں نیت کی تعیین بھی ضروری ہے کہ میں ظہر کی فرض نماز پڑھ رہاہوں یا عصر کی نماز پڑ ھ رہا ہوں، صرف نماز کی نیت کرنا کافی نہیں ہے۔ صورت مذکورہ میں اگر اس نے مثلا ظہر کی نماز کے وقت ظہر کی نیت کی تھی اگر چہ زبان سے نیت کے الفاظ ادا نہیں کیے تھے، جیسا کہ عام طورپر ہوتاہے اور وہ نماز کے فرض ہونے کی ہی نیت کرتاہے، یعنی وہ تمام نمازوں کے لیے فرض کی ہی نیت کرتارہا تواس کی نماز درست ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں؛ لیکن اگر اس کو نماز کے فرض ہونے کا علم نہیں تھا یا وہ یہ جانتا تھا کہ بعض نمازیں فرض ہیں اور بعض سنت ہیں پھر اس نے متعین طورپر فرض یا نفل کی نیت نہیں کی تو اس کا فریضہ ساقط نہیں ہوا۔ اس طرح بلا نیت کے یا فرض نیت کے بغیر پڑھی گئی نمازوں کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔ ہاں جو نمازیں امام کے پیچھے امام کی اقتدا کی نیت سے پڑھی ہے ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی اس لیے کہ امام نے فرض کی نیت کی ہے اور مقتدی نے اقتدا کی نیت کی ہے۔
’’ومن صلی سنین ولم یعرف النافلۃ من الفریضۃ إن ظن أن الکل فریضۃ جاز وإن لم یعلم لایجوز وإنما یفعل کما یفعلہ الناس فإنہ ینظر إلی ظنہ إن ظن الکل أي کل شیء یصلیہ فریضۃ جاز فعلہ وسقط عنہ الفرض لحصول شرائطہ کلہا وإن لم یعلم أن فیہا فریضۃ أو علم أن منہا فریضۃ ومنہا سنۃ ولم یمیز ولم ینو الفریضۃ لا یجوز وعلیہ قضاء صلوات تلک السنین إلا ما اقتدی فیہ ناویا صلاۃ الإمام‘‘(۱)
’’ولو صلی سنین ولم یعرف النافلۃ من المکتوبۃ؛ إن ظن أن الکل فریضۃ جاز ما یصلي، لأنّ النفل یتأدي بہ۔ وإن کان ما یعلم أن البعض فریضۃ والبعض سنّۃ فکل صلاۃ صلاہا خلف الإمام جاز إذا نوی صلاۃ الإمام۔ وإن کان یعلم الفرائض من النوافل، ولکن لا یعلم ما في الصلاۃ من الفریضۃ والسنّۃ، فصلی الفرائض بنیتہا فصلواتہ جائزۃ، وإذا کان لا یعلم الفرائض من النوافل، قام یوماً ونوی الفرض في الکل، فقد ذکرنا أن صلوات الأیام کلہا جائزۃ‘‘(۲)
(۱) محمود بن أحمد، غنیۃ المتملي شرح منیۃ المصلی، ’’کتاب الصلاۃ: الشرط السادس: النیۃ‘‘: ص: ۲۲۱۔
(۲) محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس، الفصل الرابع في کیفیتہا‘‘: ج۱، ص: ۲۸۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص305