الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں جس نیت سے جو نماز شروع کی گئی ہے وہی نماز ہوگی درمیان میں صرف نیت کے بدلنے سے دوسری نماز کی طرف منتقل نہیں ہو سکتے، لہٰذا نیت کی تبدیلی سے وہ فرض اور قضاء نماز نہیں ہوئی، بلکہ جو نماز پہلی نیت سے شروع کی تھی یعنی سنت وہی ادا ہوگی؛ اس لیے کہ نماز صرف نیت سے منتقل نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے تکبیر تحریمہ کہنا بھی ضروری ہے۔
’’الرابع في صفۃ المنوی من الفریضۃ والنافلۃ والأداء والقضاء، أما الصلاۃ فقال في البزازیۃ: إنہ ینوی الفریضۃ في الفرض فقال معزیاً إلی المجتبیٰ ’’لابد من نیۃ الصلاۃ ونیۃ الفرض ونیۃ التعیین الخ‘‘(۱)
’’(قولہ ولا تبطل بنیۃ القطع) وکذا بنیۃ الانتقال إلی غیرہا (قولہ ما لم یکبر بنیۃ مغایرۃ) بأن یکبر ناویا النفل بعد شروع الفرض وعکسہ، أو الفائتۃ بعد الوقتیۃ وعکسہ، أو الاقتداء بعد الإنفراد وعکسہ۔ وأما إذا کبر بنیۃ موافقۃ کأن نوی الظہر بعد رکعۃ الظہر من غیر تلفظ بالنیۃ فإن النیۃ الأولی لا تبطل ویبنی علیہا۔ ولو بنی علی الثانیۃ فسدت الصلاۃ‘‘(۲)
’’قولہ ولا عبرۃ بنیۃ متأخرۃ) لأن الجزء الخالي عن النیۃ لا یقع عبادۃ فلا یبنی الباقي علیہ، وفي الصوم جوزت للضرورۃ، حتی لو نوی عند قولہ اللّٰہ قبل أکبر لا یجوز لأن الشروع یصح بقولہ اللّٰہ فکأنہ نوی بعد التکبیر حلیۃ عن البدائع‘‘(۱)
(۱) ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، القاعدۃ الثانیۃ: ص: ۱۵۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص307