الجواب وباللّٰہ التوفیق: سرین نہ اٹھائے جائیں اور ہاتھ کو بھی علیحدہ نہ کیا جائے۔ (۲)
(۲)وإن تعذرا لا القیام أومأ قاعدا ویجعل سجودہ أخفض من رکوعہ لزوما ولا یرفع إلی وجہہ شیئا یسجد علیہ فإنہ یکرہ تحریماً۔ قولہ ویجعل سجودہ أخفض إلخ، أشار إلی أنہ یکفیہ أدنی الإنحناء عن الرکوع وأنہ لا یلزمہ تقریب جبہتہ من الأرض بأقصی ما یمکنہ کما بسطہ في البحر عن الزاہدي۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۷، ۵۶۸، زکریا دیوبند)
وقال في المجتبی: کانت کیفیۃ الإیماء بالرکوع والسجود مشتبہاً علی أنہ یکفی بعض الانحناء أم أقصی ما یمکن فظفرت علی الروایۃ فإنہ ذکر شیخ الإسلام المومئ إذا خفض رأسہ للرکوع شیئاً ثم للسجود شیئاً جاز۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقی الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ص: ۴۳۲، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 332