34 views
جوتا پہن کر نماز پڑھنا:
(۷۸)سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام و علماء عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں: جوتا پہن کر نماز پڑھنا درست ہے یانہیں؟ کیا مسجد میں جوتا پہن کر نماز ہوجائے گی؟
فقط: والسلام
المستفتی: راشد اعظم ،گنٹور
asked Jan 14 in نماز / جمعہ و عیدین by javed1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر جوتا پاک ہو تو ایسے جوتے کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ ؓسے جوتا پہن کر نماز پڑھنا ثابت ہے، تاہم مسجد میں جوتے کے ساتھ نماز پڑھنا موجودہ ماحول میں درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد میں فرش نہیں تھا؛ بلکہ مسجد میں سنگ ریزے تھے؛ ا س لیے وہاں پر آپ جوتے میں نماز پڑھتے تھے؛ لیکن آج کل مساجد میں فرش، ٹائلس اور عمدہ قالین بچھی ہوئی ہوتی ہے مسجد میں جوتا لے کر جانے میں مسجد کی تلویث کا اندیشہ ہے۔ نیز یہ آپسی نزاع کا باعث بن سکتاہے؛ اس لیے کہ عام طورپر لوگ مسجد میں جوتا لے کر داخل نہیں ہوتے؛ بلکہ ہمارے عرف میں مسجد میں جوتا پہن کر جانا اگر چہ جوتا پاک ہو احترام مسجد کے خلاف تصور کیا جاتا ہے اب اگر کوئی ایک آدمی جوتا پہن کر مسجد میں داخل ہوگا تو دوسرے لوگوں کو اعتراض ہوگا اور یہ نزاع کا باعث بنے گا؛ اس لیے مسجد میں جوتا پہن کر نماز نہیں پڑھنی چاہیے؛ ہاں! مسجد کے علاوہ کسی جگہ جوتے پہن کر نماز پڑھنے کی ضرورت ہو تو نماز پڑھ سکتے ہیں۔
’’(قولہ: وصلاتہ فیہما) أي في النعل والخف الطاہرین أفضل؛ مخالفۃً للیہود، تتارخانیۃ۔ وفي الحدیث: صلوا في نعالکم، ولاتشبہوا بالیہود رواہ الطبراني کما في الجامع الصغیر رامزًا لصحتہ۔ وأخذ منہ جمع من الحنابلۃ أنہ سنۃ، ولو کان یمشي بہا في الشوارع؛ لأنّ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصحبہ کانوا یمشون بہا في طرق المدینۃ ثم یصلون بہا۔ قلت: لکن إذا خشی تلویث فرش المسجد بہا ینبغي عدمہ وإن کانت طاہرۃً۔ و أما المسجد النبوي فقد کان مفروشًا بالحصی في زمنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بخلافہ في زماننا، ولعل ذلک محمل ما في عمدۃ المفتي من أن دخول المسجد متنعلًا من سوء الأدب   تأمل‘‘(۱)
’’فروع: یکرہ اشتمال الصلاۃ علی الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وکل عمل قلیل بلا عذر‘‘(۲)
’’أخبرنا أبو مسلمۃ سعید بن یزید الأزدي، قال: سألت أنس بن مالک: أکان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي في نعلیہ؟ قال: ’’نعم‘‘(۱) وقد علمت أن النعال غیر المداس المعروف الآن في بلادنا، والصلاۃ في المداس ربما لا تصح؛ لأن
القدم تبقی فیہا معلّقۃ، ولا تقع علی الأرض، فلا تتم السجدۃ۔ ثم في الشامي: أن الصلاۃ في النعلین مستحبۃ، وفي موضع آخر: أنہا مکروہۃ تنزیہًا۔ قلتُ: بل ہي مباح، وحقیقۃ الأمر عندي: أن موسی علیہ الصلاۃ والسلام لما ذہب إلی الطور {نُوْدِيَ ٰیمُوْسٰیہط ۱۱ إِنِّيْٓ أَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَج} (سورۃ طہ: ۱۱، ۱۲) حملہ الیہود علی النہی مطلقًا، فلم یجوزوا الصلاۃ في النعلین بحال، وغلطوا فیہ فأصلَحہُ الشرع وکشف عن حقیقتہ من أنہا جائزۃ فیہما، وما زعموہ باطل، ولذا ورد في بعض الروایات: خالفوا الیہود فعلم أن الأمر بالصلاۃ فیہما علی ما في بعض الروایات، إنما ہي لأجل تقریر مُخالفتہم، لا لأنہا مطلوبۃ في نفسہا‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘:  مطلب في أحکام  المساجد، فروع: یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار، ج ۲، ص: ۴۲۹
(۲) أیضًا۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في  النعال‘‘: ج۱، ص: ۵۶، رقم: ۳۸۶۔
(۲) الکشمیری، فیض الباري شرح صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الصلاۃ في النعال‘‘: ج ۲، ص:۳۵، شیخ الہند دیوبند۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص338

 

answered Jan 15 by Darul Ifta
...