20 views
عورت نماز میں ہاتھ کہاں تک اٹھائے؟
(۹۳)سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
کیا عورت بھی مردوں کی طرح تکبیر تحریمہ کے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھائے گی، یا عورت اور مرد کی نماز میں کچھ فرق ہے؟ نیز اگر فرق ہے تو اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ بالدلیل تفصیل سے جواب دے کر مشکور فرمائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد سجاد علی، ایم پی
asked Jan 14 in نماز / جمعہ و عیدین by javed1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عورت اور مرد کی نمازوں میں کئی اعتبار سے فرق ہے حضرات فقہاء نے اس کی تفصیلات ذکر کی ہیں اور وہ تفصیلات اور فرق احادیث مبارکہ سے ماخوذ اور مستفاد ہے جس کا جواب درج ذیل ہے اس سے مرد وعورت کی نمازوں میں جو فرق ہے وہ واضح ہو جائے گا۔
مرد تکبیر تحریمہ کے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھائیں گے جب کہ خواتین کے لیے سینہ تک ہاتھ اٹھانے کا حکم ہے، اور یہ حدیث سے ثابت ہے:
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔
’’عن وائل بن حجر، قال: جئت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم … فقال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یا وائل بن حجر، إذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک، والمرأۃ تجعل یدیہا حذاء ثدییہا‘‘(۱)
’’عن عبد ربہ بن زیتون، قال: رأیت أم الدرداء ترفع یدیہا حذو منکبیہا حین تفتتح الصلاۃ‘‘(۲)
عبد ربہ بن زیتون سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ نماز شروع کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتی تھیں، علامہ ابن الہمام ؒنے بھی فتح القدیر میں لکھا ہے: تکبیر تحریمہ کے وقت عورت اپنے کندھوں کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے، یہ صحیح تر ہے  کیوں کہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔ ’’المرأۃ ترفع یدیہا حذاء منکبیہا، وہو الصحیح؛ لأنہ أسترلہا‘‘(۳)
ان روایات اور فتح القدیر کی عبارت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عورت کے لیے ہاتھوں کو کندھے اور سینہ تک اٹھانے کا حکم ہے؛ لہٰذا عورت اپنے ہاتھ اس طرح اٹھائے گی کہ ہاتھوں کی انگلیاں کندھوں تک اور ہتھیلیاں سینہ کے برابر آجائیں۔ فرق کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح ہاتھ اٹھانے میں زیادہ ستر پوشی ہوتی ہے، جو عورت کے حق میں عین مطلوب ہے۔
دوسرا فرق عورت اور مرد کی نماز میں قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنے کی ہیئت میں ہے کہ مرد کے لیے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا مستحب ہے، اگرچہ حضرات فقہاء نے اس حوالے سے اختلاف بھی کیا ہے، تاہم عورتوں کے حوالہ سے تمام اہلِ علم کا اجماع ہے (اور اجماع مستقل دلیل شرعی ہے) کہ وہ قیام کے وقت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی۔ جیسا کہ کنز کی شرح میں لکھا ہے:
’’تضع المرأۃ یدیہا علی صدرہا‘(۱)
عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی۔
’’و تضع المرأۃ یدیہا علی صدرہا‘‘(۲)
عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی۔
’’وأما في حق النساء فاتفقوا علی أن السنۃ لہن وضع الیدین علی الصدر لأنہا أستر لہا‘‘(۳)
الحاصل: مذکورہ عبارتوں سے مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق واضح ہو جاتا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت خواتین سینہ تک ہاتھ اٹھائیں گی اور قیام کی حالت میںسینہ پر ہاتھ باندھیںگی۔

(۱) المعجم الکبیر للطبراني، أم یحییٰ بنت عبدالجبار بن وائل: ج ۹، ص: ۱۴۴، رقم: ۱۷۴۹۷؛ ومجمع الزوائد: ج ۲، ص:۱۲۲، رقم: ۲۵۹۴۔
(۲) مصنف ابن أبي شیبۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في المرأۃ إذا افتتحت الصلاۃ إلی أین ترفع یدیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۱۔
(۳) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۶۔
(۱) مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق: ص: ۱۵۳۔
۲) فخرالدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۷۔
(۳) السعایۃ: ج ۲، ص: ۱۵۶۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص354

 

answered Jan 15 by Darul Ifta
...