23 views
عورتوں اور مردوں کی نماز میں فرق:
(۹۴)سوال: حضرات علماء کرام: سلام مسنون:
میرا ایک دوست ہے وہ اور اس کی پوری فیملی اہل حدیث سے تعلق رکھتی ہے، میرے دوست کا کہنا ہے کہ عورتوں اور مردوں کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے اس لیے کہ نماز کا حکم مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یکساں ہے تو دونوں کی نمازوں میں فرق کیسے ہوگا؟ لیکن میرا دل اس کی بات سے
مطمئن نہیں ہے آپ لوگوں سے گزارش ہے کہ کوئی حدیث کی کتابوں سے حوالہ لکھ دیں تاکہ میرا دوست اس کو مان سکے، ’’جزاکم اللّٰہ خیراً‘‘
فقط: والسلام
المستفتی: ابرار احمد، دہلی
asked Jan 14 in نماز / جمعہ و عیدین by javed1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ کے دوست کا دعویٰ کہ مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے! بے اصل اور بے بنیاد ہے۔ حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے، حدیث کی کتابوں میں کئی ایسی روایتیں ہیں جو مرد اور عورت کی نماز میں فرق کو بیان کرتی ہیں کنزل العمال میں یزید بن ابو حبیب سے مرسلاً ایک روایت ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد اور عورت کی نماز میں فرق کو بیان فرمایا ہے: ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز پڑھنے والی دو عورتوں کے پاس سے گزر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کے بعض حصے کو زمین سے ملاؤ؛ کیوں کہ عورت سجدہ کرنے میں مرد کی طرح نہیں ہے۔
’’أن النبي مر علی امرأتین تصلیان فقال إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأۃ في ذلک لیست کالرجل‘‘(۱)
ایک اور روایت ہے:
’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فإذا سجدت الصقت بطنہا في فخذیہا کأستر ما یکون لہا وأن اللّٰہ ینظر إلیہا ویقول یا ملائکتي أشہدکم أني قد غفرت لہا‘‘(۲)
حضرت ابن عمر ؓنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں … جب عورت سجدہ کرے گی تو
اپنا پیٹ رانوں سے ملائے جتنا چھپانا ممکن ہو اپنے اعضاء کو چھپائے گی اور اللہ تعالیٰ ایسی عورت کی طرف دیکھ کر فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! تم کو میں اس کی مغفرت پر گواہ بناتا ہوں۔
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے کہ:
’’عن إبراہیم قال: إذا سجدت المرأۃ فلتلزق بطنہا بفخذیہا و لا ترفع عجیزتہا ولا تجافی کما یجافی الرجل‘‘(۱)
حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ (مشہور تابعی) کہتے ہیں کہ عورت پیٹ کو دونوں رانوں سے ملائے اور سرین کو نہ اٹھائے اور مرد کی طرح کھل کر سجدہ نہ کرے۔
مذکورہ اثر سے معلوم ہوا کہ مرد اور عورت کی نماز میں فرق کا مسئلہ صحابہ کرامؓ اور تابعین ؒکے زمانہ میں مشہور تھا اور صحابہؓ وتابعین ؒنماز میں مردوں کے لیے اعضاء کشادہ کرنے کے قائل تھے نہ کہ عورتوں کے لیے، ایسے ہی مذاہب اربعہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، فقہاء اور حدیث کے شارحین کے اقوال تو اس سلسلے میں لا تعداد ہیں۔ مزید تفصیلات کتب احادیث میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
خلاصہ: مرد اورعورت کی نماز میں فروق نصوص سے ثابت ہیں۔ جیسا کہ معجم الکبیر اور مجمع الزوائد میں منقول ہے:
حضرت وائل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔
’’عن وائل بن حجر، قال: جئت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم … فقال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یا وائل بن حجر، إذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک، والمرأۃ تجعل یدیہا حذاء ثدییہا‘‘(۲)

(۱) کنز العمال، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثاني في أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۷، ص: ۴۶۲، رقم: ۱۹۷۸، وجمع الجوامع: ج ۱، ص: ج ۱، ص: ۲۴۶۔
(۲) کنز العمال، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثاني، في أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۷، ص: ۵۴۹، و جامع الأحادیث: ج ۳، ص: ۴۳۔
(۱)أخرجہ ابن أبي شیبہ، في مصنفہ، باب: المرأۃ کیف تکون في سجودھا: ج ۱، ص: ۲۴۲، رقم:۲۷۸۲۔
(۲) المعجم الکبیر للطبراني: ج ۹، ص: ۱۴۴، رقم: ۱۷۴۹۷؛ ومجمع الزوائد: ج ۹، ص: ۶۲۴، رقم: ۱۶۰۵۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص357

answered Jan 15 by Darul Ifta
...