123 views
التحیات کا حکم:
(۱۰۷)سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: قعدہ اولیٰ یا اخیرہ میں التحیات پڑھنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ ایسے ہی اگر کوئی شخص امام کے ساتھ قعدہ اولیٰ یا اخیرہ میں شامل ہو اسی اثنا میں امام سلام پھیر دے یا امام قعدہ اولیٰ میں ہو اور وہ تیسری رکعت کے
لیے کھڑا ہو جائے تو التحیات پوری پڑھے گا؟ یا التحیات پڑھے بغیر امام کی اتباع کرے گا؟ اس صورت میں اس کی نماز ادا ہوگی یا نہیں؟ یا اس نماز کو لوٹانا ضروری ہے؟ براہ کرم شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد ذاکر حسین، دربھنگہ
asked Jan 15 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب و باللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ نماز کے ہر قعدہ میں التحیات پڑھنا واجب ہے خواہ نماز فرض ہو یا نفل اگر امام صاحب قعدہ اخیرہ میں سلام پھر دیں یا قعدہ اولیٰ ہو اور تیسری رکعت کے لیے امام کھڑا ہو جائے اس صورت میں التحیات مکمل کر کے ہی تیسری رکعت یا بقیہ نماز کی تکمیل کے لیے کھڑا ہونا چاہئے؛ البتہ اگر التحیات پڑھے بغیر ہی کھڑا ہو گیا تو اس صورت میں کراہت کے ساتھ نماز ادا ہو جائے گی اعادہ کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ علامہ حصکفیؒ نے در مختار میں لکھا ہے:
’’(بخلاف سلامہ) أو قیامہ لثالثۃ (قبل تمام المؤتم التشہد) فإنہ لا یتابعہ بل یتمہ لوجوبہ، ولو لم یتم جاز؛ ولو سلم والمؤتم في أدعیۃ التشہد تابعہ لأنہ سنۃ والناس عنہ غافلون۔ (قولہ: فإنہ لا یتابعہ إلخ) أي ولو خاف أن تفوتہ الرکعۃ الثالثۃ مع الإمام کما صرح بہ في الظہیریۃ، وشمل بإطلاقہ ما لو اقتدی بہ في أثناء التشہد الأول أو الأخیر، فحین قعد قام إمامہ أو سلم، ومقتضاہ أنہ یتم التشہد ثم یقوم ولم أرہ صریحا، ثم رأیتہ في الذخیرۃ ناقلا عن أبي اللیث: المختار عندي أنہ یتم التشہد وإن لم یفعل أجزأہ۔ اھـ۔ وللّٰہ الحمد (قولہ: لوجوبہ) أي لوجوب التشہد کما في الخانیۃ وغیرہا، ومقتضاہ سقوط وجوب المتابعۃ کما سنذکرہ وإلا لم ینتج المطلوب فافہم (قولہ ولو لم یتم جاز) أي صح مع کراہۃ التحریم کما أفادہ ح، ونازعہ ط والرحمتی، وہو مفاد ما في شرح المنیۃ حیث قال: والحاصل أن متابعۃ الإمام في الفرائض والواجبات من غیر تأخیر واجبۃ فإن عارضہا واجب لا ینبغي أن یفوتہ بل یأتي بہ ثم یتابعہ لأن الإتیان بہ لا یفوت المتابعۃ بالکلیۃ وإنما یؤخرہا، والمتابعۃ مع قطعہ تفوتہ بالکلیۃ، فکان تأخیر أحد الواجبین مع الإتیان بہما أولیٰ من ترک أحدہما بالکلیۃ‘‘(۱)
’’إذا أدرک الإمام في التشہد وقام الإمام قبل أن یتم المقتدي أو سلم الإمام في آخر الصلاۃ قبل أن یتم المقتدي التشہد فالمختار أن یتم التشہد۔ کذا في الغیاثیۃ وإن لم یتم أجزأہ‘‘(۱)
’’(والتشہدان) ویسجد للسہو بترک بعضہ ککلہ وکذا في کل قعدۃ في الأصح إذ قد یتکرر عشراً۔ (قولہ: والتشہدان) أي تشہد القعدۃ الأولی وتشہد الأخیرۃ‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘:ج ۲، ص:۱۹۹،۲۰۰۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السادس فیما یتابع الإمام وفیما لایتابع‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۷۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب لاینبغي أن یعدل عن الدرایۃ إذا وقفتہا روایۃ ‘‘: ج ۲، ص:۱۵۷، ۱۵۸۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص370

 

answered Jan 15 by Darul Ifta
...