الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب کے لیے عذر کی وجہ سے ایسا کرنا مکروہ نہیں ہے، البتہ اگر عذر نہ ہو تو پہلے ہاتھ رکھنا مکروہ ہوگا۔
’’ثم وضع رکبتیہ ثم یدیہ إن لم یکن بہ عذر من ہذہ الصفۃ‘‘(۱)
(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۵۴۔
عن وائل بن حجر رضي اللّٰہ عنہ قال رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا اسجد وضع رکبتیہ قبل یدیہ وإذا نہض رفع یدیہ قبل رکبتیہ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۲، رقم: ۸۳۸؛ وأخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ماجاء في وضع رکبتین قبل الیدین‘‘: ج ۲، ص: ۵۶، رقم: ۲۶۸؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، السجود‘‘: ج ۱، ص: ۶۳، رقم: ۸۸۲۔
ومن سنن الانتقال أن یکبر مع الانحطاط ولا یرفع یدیہ؛ لما تقدم، ومنہا أن یضع رکبتیہ علی الأرض ثم یدیہ وہذا عندنا، ولنا عین ہذا الحدیث؛ لأن الجمل یضع یدیہ أولا وروي عن عمر وابن مسعود رضي اللّٰہ عنہما مثل قولنا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في سنن حکم التکبیر أیام التشریق‘‘: ج۲، ص: ۱۴۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص376