الجواب وباللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ فرض وشرط ہے اور دیگر تکبیرات مسنون ہیں صورت مسئولہ میں نماز تو ادا ہوگئی، لیکن ’’سمع اللّٰہ لمن حمدہ‘‘ کہنا ہی مسنون ہے۔(۲)
(۲) فرائض الصلاۃ ستۃ التحریمۃ لقولہ تعالیٰ: {وربک فکبر} (المدثر: ۳) والمراد تکبیرۃ الافتتاح۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۰)
وإذا اطمأن راکعا رفع رأسہ وقال: سمع اللّٰہ لمن حمدہ ولم یرفع یدیہ فیحتاج فیہ إلی بیان المفروض والمسنون۔
أما المفروض فقد ذکرناہ وہو الانتقال من الرکوع إلی السجود لما بینا أنہ وسیلۃ إلی الرکن، فأما رفع الرأس وعودہ إلی القیام فہو تعدیل الانتقال وأنہ لیس بفرض عند أبي حنیفۃ ومحمد بل ہو واجب أو سنۃ عندہما وعند أبي یوسف والشافعي فرض علی ما مر۔
وروي عن أبي حنیفۃ مثل قولہما، احتجوا بما روي عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’إذا رفع رأسہ من الرکوع قال: سمع اللّٰہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد‘‘ وغالب أحوالہ کان ہو الإمام، وکذا روي أبو ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ؛ ولأن الإمام منفرد في حق نفسہ والمنفرد یجمع بین ہذین الذکرین فکذا الإمام، ولأن التسمیع تحریض علی التحمید فلا ینبغي أن یأمر غیرہ بالبر وینسي نفسہ کي لا یدخل تحت قولہ تعالی: {أتأمرون الناس بالبر وتنسون أنفسکم وأنتم تتلون الکتاب} (البقرۃ: ۴۴) (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹) (شاملہ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص377