38 views
رفع یدین کا کیا حکم ہے؟
(۱۲۵)سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام: رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا کیا حکم ہے؟ اہل حدیث رفع یدین پر بڑا زور دیتے ہیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: دینی بکڈپو، گنور
asked Jan 16 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شروع زمانہ میں نماز کی ہر نقل وحرکت کے ساتھ رفع یدین کا معمول تھا حتی کہ صحابہ کرامؓ سلام پھیرتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے؛ لیکن بعد میں بتدریج ہر ہر نقل وحرکت کے وقت رفع یدین سے منع کر دیا گیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہ صحابہ کرام سے نماز میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفع یدین نہ کرنے کا ثبوت صحیح اور معتبر روایات سے ہے؛ اس لیے حنفیہ کے نزدیک وہ روایات قابل ترجیح ہیں جن میں ترک رفع یدین کا ثبوت ہے؛ لہٰذا تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفع یدین کرنا خلاف سنت ہوگا۔ حضرت ابراہیم نخعیؒ نے حضرت وائل ابن حجر ؓکی رفع یدین والی حدیث کے بارے میں فرمایا اگر حضرت وائل ؓنے آپ کو ایک مرتبہ رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ ابن مسعود نے آپ کو پچاس مرتبہ رفع یدین نہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
’’عن المغیرۃ قال قلت لإبراہیم حدیث وائل أنہ رأي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یرفع یدیہ إذا افتتح الصلوٰۃ وإذا رکع وإذا رفع رأسہ من الرکوع فقال إن کان وائل رآہ مرۃ یفعل ذلک فقد رآہ عبد اللّٰہ خمیس مرۃ لا یفعل ذلک‘‘(۱)
’’عن علقمۃ عن عبد اللّٰہ ابن مسعود رضياللّٰہ قال صلیت خلف النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر فلم یرفعوأیدیہم إلا عند افتتاح الصلوٰۃ‘‘(۲)
’’عن إبراہیم عن الأسود قال رأیت عمر بن الخطاب یرفع یدیہ في أول تکبیرۃ ثم لا یعود قال ورأیت إبراہیم والشعبي یفعلان ذلک‘‘(۳)
’’عن عاصم بن کلیب الجرمی عن أبیہ قال رأیت علی بن طالب رضي اللّٰہ عنہ رفع یدیہ في التکبیرۃ الأولیٰ من الصلوٰۃ والمکتوبۃ ولم یرفعہما فیما سویٰ ذلک‘‘(۴)
’’ولا یسن مؤکداً رفع یدیہ إلا فی سبع مواطن کما ورد … تکبیرۃ افتتاح وقنوت، در مختار وفي الشامي الوارد ہو قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا ترفع الأیدی إلا في سبع مواطن تکبیرۃ الافتتاح وتکبیرۃ القنوت وتکبیرات العیدین الخ قال في فتح القدیر والحدیث غریب بہذا اللفظ‘‘(۱)
فلا یرفع یدیہ عند الرکوع إلا عند الرفع منہ لحدیث أبي داود عن البراء قال رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ حین افتتح الصلوٰۃ ثم لم یرفعہما حتی انصرف‘‘(۲)
’’عن جابر بن سمرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال مال أراکم رافعي أیدیکم کأنہا أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلوٰۃ‘‘(۳)
’’ویرفع یدیہ مع التکبیر حتی یحاذي بإبہامیہ شحمۃ أذنیہ‘‘(۴)
’’عن أنس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسم کان إذا کبر رفع یدیہ حذاء أذنیہ‘‘(۵)
’’قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کبر لافتتاح الصلوٰۃ رفع یدیہ حتی إبہاماہ قریباً من شحمتي أذنیہ ثم لایعود، ومثل ذلک أحادیث کثیرۃ‘‘(۶)

(۱) أخرجہ أبو جعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلاۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘ ج۱، ص:۱۳۲، رقم: ۱۳۵۱۔
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ: ج ۲، ص: ۷۹۔
(۳) أخرجہ أبوجعفر أحمد بن محمد، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلوۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۳، رقم: ۱۳۶۴۔
(۴) الموطأ لإمام محمد: ص: ۹۲۔
(۱) ابن عابدین،  ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۴، زکریادیوبند۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۳۔
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب الدہر بالسکون في الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۱، رقم: ۴۳۰۔
(۴) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰۔
(۵) أیضًا:
(۶) أخرجہ أبو جعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلوۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘ ج۱، ص: ۱۳۲، رقم: ۱۳۴۶۔
عن المغیرۃ قال: قلت لإبراہیم حدیث واعمل أنہ رأی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یرفع یدیہ وإذا افتتح الصلاۃ وإذا رکع وإذا رفع رأسہ من الرکوع فقال: إن کان وائل رآہ مرۃ یفعل ذلک فقد رآہ عبداللّٰہ خمسین مرۃً لایفعل ذلک۔ (أخرجہ أبوجعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلوۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۲، رقم: ۱۳۵۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص387

 

answered Jan 16 by Darul Ifta
...