61 views
مقتدیوں کو آمین کیسے کہنا چاہئے؟
(۱۲۶)سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام: آمین بالجہر کا کیا حکم ہے مقتدیوں کو بلند آواز سے آمین کہنی چاہئے یا آہستہ سے؟
فقط: والسلام
المستفتی: راشد، دہلی
asked Jan 16 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہنا بالاتفاق مسنون ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ سری وانفرادی نمازوں میں آمین آہستہ کہی جائے گی، حنفیہ کے نزدیک جہری نمازوں میں بھی آہستہ آمین کہنا افضل ہے جس کی تائید متعدد نصوص شرعیہ سے ہوتی ہے۔ لفظ آمین ایک دعاء ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت عطاء ؒکے حوالہ سے نقل فرماتے ہیں ’’الآمین دعاء‘‘(۱) مجمع البحار میں ہے ’’معناہ استجب لي‘‘(۲)
اور دعاء مانگنے میں اصل اور افضل آہستہ دعاء مانگنا ہے۔{أدعوا ربکم تضرعا وخفیۃ}(۳) حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی آہستہ دعاء کی تھی {اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآئً خَفِیًّاہ۳ }(۴)
’’عن علقمۃ بن وائل عن أبیہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقال آمین خفض بہا صوتہ‘‘(۵)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال إذا قال الإمام ’’ولا الضالین‘‘ فقولوا آمین‘‘ فإن الإمام یقولہا، رواہ أحمد، والنسائي والدارمي وإسنادہ صحیح‘‘(۶)

اس روایت میں ’’فإن الإمام یقولہا‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ ’’آمین‘‘ آہستہ کہے گا ورنہ اس جملہ کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
’’عن أبي وائل قال لم یکن عمر وعلي یجہران ببسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ولا التعوذ ولا آمین‘‘(۱)
’’عن أبي وائل قال کان علي وعبد اللّٰہ لا یجہران … بالتأمین‘‘(۲)

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ اور آثار صحابہؓ سے معلوم ہوا ہے کہ نماز میں ’’آمین‘‘ آہستہ کہی جائے گی۔
امام طبریؒ فرماتے ہیں: ’’إن أکثر الصحابۃ والتابعین رضي اللّٰہ عنہم کانوا یخفون بہا‘‘(۳)
’’ عن عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: قال عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ یخفی الإمام أربعاً التعوذ وبسم اللّٰہ الرحمن الرحیم وآمین وربنا لک الحمد‘‘(۴)
’’قال شیخ الإسلام أبو بکر المرغیناني وإذا قال الإمام ولاالضالین قال آمین، ویقولہا المؤتم قال ویخفونہا‘‘(۵)
’’قال الشیخ بدر الدین العیني أي یخفی الإمام والقوم جمیعاً لفظہ آمین‘‘(۶)
’’وسننہا … والتأمین وکونہن سراً‘‘(۷)
’’وإذا فرغ من الفاتحۃ قال آمین والسنۃ فیہ الإخفاء ویخفی الإمام والمأموم‘‘(۸)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب جہر الإمام بالتأمین‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷۔
(۲) جمال الدین، محمد طاہر بن علی، مجمع البحار: ج ۱، ص: ۱۰۵۔
(۳) سورۃ الاعراف: ۵۵۔
(۴) سورہ مریم: ۳۔
(۵) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، باب ما جاء في التأمین‘‘: ج ۲، ص: ۵۷، رقم: ۲۴۸۔
(۶) أو جز المسالک، ’’کتاب الصلوۃ: التأمین خلف الإمام‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۲۔
(۱) أخرجہ أبوجعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار: ’’کتاب الصلاۃ‘‘ ج ۱، ص: ۹۹۔
(۲) المعجم الکبیر: رقم: ۹۲۰۷، مکتبہ العلوم والحکم۔(شاملہ)
(۳) أبوظفر العثماني، إعلاء السنن: ج ۲، ص: ۲۲۳
(۴) اندلسي، المحلی بالآثار: ج۲، ص: ۲۸۰(شاملہ)
(۵) ابن الہمام، فتح القدیر مع الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۱
(۶) العیني، العنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵
(۷) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب سنن الصلاۃ‘‘: ج ۲،ص: ۱۷۲
(۸) الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث کیفیۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۷، زکریا دیوبندـ۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص390

answered Jan 16 by Darul Ifta
...