27 views
قعدہ میں شہادت کی انگلی اٹھانے کا مسئلہ:
(۱۳۰)سوال: معزز مفتی صاحب! نماز میں قعدہ اولی و قعدہ اخیرہ (تشہد) میں دونوں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں سیدھی ہوتی ہیں، کچھ لوگ ’’اشھد ان لاالہ‘‘ پر شہادت کی انگلی اٹھاتے ہیں اور باقی انگلیاں اپنی جگہ پر رہتی ہیں۔ اور کچھ لوگ شہادت کی انگلی اٹھاتے ہیں اور باقی تین انگلیاں اور انگوٹھا کی مٹھی باندھ لیتے ہیں۔ سنت طریقہ کیا ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد ہلال، بینی گنج
asked Jan 16 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قعدہ اولی و اخیرہ میں شہادت سے پہلے، آخر کی دو چھوٹی انگلیوں کو بند کرلیا جائے، بیچ والی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنالیا جائے اور ’’لا الہ‘‘ پر شہادت کی انگلی اٹھائی جائے اور ’’الا اللہ‘‘ پر گرادی جائے اور انگلیوں کا حلقہ سلام تک باقی رکھا جائے۔ یہ سنت طریقہ ہے، سنن ابی داؤد و سنن ابن ماجہ میں یہ موجود ہے۔ اعلاء السنن میں تفصیلی بحث موجود ہے:
’’حدثنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل، عن عاصم بن کلیب، عن أبیہ عن وائل بن حُجر قال: قلت: لأنظرن إلی صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کیف یُصلي، قال: فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فاستقبل القبلۃ، فکبر فرفع یدیہ حتی حاذتا أذنیہ، ثم أخذ شمالہ بیمینہ، فلما أراد أن یرکع رفعہما مثل ذلک، ثم وضع یدیہ علی رکبتیہ، فلما رفع رأسہ من الرکوع رفعہما مثل ذلک، فلمَّا سجدَ وضع رأسہ بذلک المنزل من بین یدیہ، ثم جلس فافترش رجلہ الیسری ووضع یدہ الیسری علی فخذہ الیسری، وحد مرفقہ الأیمن علی فخذہ الیمنی، وقبض ثنتین وحلق حلقۃ، ورأیتہ یقول: ہکذا، وحلق بشر الإبہام والوسطی، وأشار بالسبابۃ ‘‘(۱)
’’عن عاصم بن کلیب الجرمی عن أبیہ، عن جدہ، قال: دخلت علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہو یصلي وقد وضع یدہ الیسری علی فخذہ الیسری ووضع یدہ الیمنی علی فخذہ الیمنی وقبض أصابعہ وبسط السبابۃ، وہو یقول: یَا مقلب القلوب، ثبت قلبي علی دینک‘‘(۲)
’’الصحیح أنہ یشیر بمسبحتہ وحدہا، یرفعہا عند النفي ویضعہا عند الإثبات وفی الشامیۃ: الثاني بسط الأصابع إلی حین الشہادۃ فیعقد عندہا ویرفع السبابۃ عند النفي ویضعہا عند الإثبات، وہذا ما اعتمدہ المتأخرون لثبوتہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم بالأحادیث الصحیحۃ ولصحۃ نقلہ عن أئمتنا الثلاثۃ الخ‘‘(۳)
’’یرفعہا الخ وعند الشافعیۃ یرفعہا لذا بلغ الہمزۃ من قولہ إلا اللّٰہ، ویکون قصدہ بہا التوحید والإخلاص عند کلمۃ الإثبات والدلیل للجانبین في المطولات۔ قولہ: وأشرنا إلی أنہ لا یعقد شیئا من أصابعہ وقیل الخ، صنیعہ یقتضي ضعف العقد ولیس کذلک إذ قد صرح في النہر بترجیحہ وأنہ قول کثیر من مشایخنا، قال: وعلیہ الفتوی کما في عامۃ الفتاوی وکیفیتہ أن یعقد الخنصر والتي تلیہا محلقا بالوسطی والإبہام‘‘(۱)
’’أصابعہ أي بسط أصابعہ في إطلاق البسط إیماء إلی أنہ لایشیر بالسبابۃ عندالشھادتین عاقدا الخنصر والتي تلیھا محلقا الوسطی والإبھام وعدم الاشارۃ خلاف الروایۃ والدرایۃ ففي مسلم کان النبي ﷺ یشیر بأصبعہ التي تلی الإبھام قال محمد ونحن نصنع بصنعہ ﷺ وفي المجتبی لما اتفقت الروایات وعلم عن أصحابنا جمیعا کونھا سنۃ وکذا عن الکوفیین والمدنیین وکثرت الأخباروالآثار کان العمل بھا أولی وھو الأصح ثم قال الحلواني: یقیم الأصابع عندالنفي ویضعہ عندالإثبات، واختلف في وضع الید الیمنی فعن أبي یوسف أنہ یعقد الخنصر والبنصر ویحلق الوسطی والإبھام وفي درر البحار المفتی بہ عندنا أنہ یشیر باسطا أصابعہ کلھا وجاء في الأخبار وضع الیمنی علی صورۃ عقد ثلاثۃ وخمسین أیضا فتح وعیني وغیرہ‘‘(۲)

(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب رفع الیدین‘‘: ج ۱، ص:۱۰۴، رقم: ۷۲۶
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات: باب‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۵، رقم: ۳۵۸۷۔
(۳) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في بیان سننھا‘‘: ج ۱، ص:۲۷۰۔
(۲) أبوالبرکات عبداللّٰہ بن أحمد النسفي، کنزالدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: کیفیۃ أداء الصلاۃ، حاشیۃ: ص:۲۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص397

 

answered Jan 16 by Darul Ifta
...