الجواب وباللّٰہ التوفیق: صفوں کے سیدھا کرنے اور خالی جگہوں کو پر کرنے کی تعلیم احادیث میں موجود ہے اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت رہی ہے، اس لیے صف کو سیدھا کرنے یا خالی جگہ کو پر کرنے کے لیے مکبر کا آگے یا پیچھے ہٹنا جائز ودرست ہے۔(۱)
(۱) سووا صفوفکم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب: تسویۃ الصفوف وإقامتہا وفضل الأول فالأول منہا‘‘:ج۱، ص: ۱۸۲، رقم: ۴۳۳)
اتموا الصف المقدم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن في الصف المؤخر۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ: ج۲۱، ص: ۱۱۴، رقم: ۱۳۴۰)
ألا تصفون کما تصف الملائکۃ عند ربہم جل وعز؟ قلنا: وکیف تصف الملائکۃ عند ربہم؟ قال: یتمون الصفوف المقدمۃ ویتراصون في الصف۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ،’’کتاب الصلاۃ: تفریع أبواب الصفوف، باب: تسویۃ الصفوف‘‘: ج۱، ص: ۱۰۶، رقم: ۶۶۱۰)
وینبغي للقوم إذا قاموا إلی الصلاۃ أن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا بین مناکبہم في الصفوف، ولا بأس أن یأمرہم الإمام بذلک: لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: (سووا صفوفکم؛ فإن تسویۃ الصف من تمام الصلاۃ)۔ (فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۶۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 409