الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا نہ فرض ہے اور نہ ہی واجب، بلکہ دونوں سورتوں کے درمیان ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا بہتر ہے، خواہ سورۃ الفاتحہ اور سورت کی تلاوت جہراً (بآواز بلند) ہو یا سراً (آہستہ آواز سے) ہو، اگر کوئی ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ نہ پڑھ سکے تو اس سے نماز میں کوئی کراہت لازم نہیں آتی ہے، نماز ادا ہو جاتی ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ حاشیہ الطحطاوی میں لکھا ہے:
’’فلا تسن التسمیۃ بین الفاتحۃ والسورۃ ولا کراہۃ فیہا وإن فعلہا اتفاقاً للسورۃ سواء جہر أو خافت بالسورۃ‘‘(۱)
علامہ ابن نجیمؒ البحر الرائق اور علامہ ابن عابدین رد المحتار میں بیان کرتے ہیں:
’’إن سمی بین الفاتحۃ و السورۃ کان حسناً عند أبي حنیفۃ‘‘(۲)
’’إن سمی بین الفاتحۃ والسورۃ المقروء ۃ سراً أو جہراً کان حسناً عند أبي حنیفۃ الخ‘‘(۳)
’’عن أنس بن مالک، قال: صلی معاویۃ بالمدینۃ صلاۃ فجہر فیہا بالقراء ۃ، فقرأ فیہا بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم لأم القرآن ولم یقرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم للسورۃ التي بعدہا حتی قضی تلک القراء ۃ، فلما سلم ناداہ من سمع ذلک من المہاجرین، والأنصار من کل مکان: یا معاویۃ أسرقت الصلاۃ، أم نسیت؟ فلما صلی بعد ذلک قرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم للسورۃ التي بعد أم القرآن، وکبر حین یہوی ساجداً ‘‘(۱)
(۱) احمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في کیفیۃ ترتیب أفعال الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۲۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: فصل وإذا أراد الدخول في الصلاۃ کبر‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۲۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: فروع قرأ بالفارسیۃ أو التوراۃ‘‘: ج ۲، ص:۱۸۹۔
(۱) أخرجہ الحاکم، في مستدرک: ج ۱، ص: ۲۳۳، رقم: ۸۸۱۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 412