38 views
وقت قیام پیروں کے درمیان کا فاصلہ کتنا ہو؟
(۱۴۸)سوال: وقت قیام دونوں پاؤں کے بیچ میں کتنی جگہ کھلی رکھنی چاہئے، زید کہتا ہے کہ قریب ڈیڑھ بالشت فاصلہ ہونا چاہئے یہ ہی سنت ہے، بکر کہتا ہے کہ چار انگلی کے برابر فاصلہ ہونا چاہئے یہ ہی سنت ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمود عالم، مرادآباد
asked Jan 16 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں قیام کی حالت میں دونوں کے درمیان چار انگشت کے بقدر جگہ رکھنا افضل ہے اور یہ خشوع کے زیادہ قریب ہے شامی میں ہے ’’لأنہ أقرب إلی الخشوع‘‘ (۱) یہ افضلیت عام حالات میں ہے اگر کسی کو اس سے زیادہ فاصلہ رکھنے میں سکون ملے کہ کوئی موٹے جسم کا لحیم شحیم ہو تو اس کے لیے وہی افضل ہے جس میں اس کو سکون حاصل ہو اور خشوع و خضوع پایا جاسکے۔(۲)
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص:۱۳۱۔
(۲) عن أبي عبیدۃ قال: مر ابن مسعود برجل صاف بین قدمیہ، فقال: أما ہذا فقد أخطأ السنۃ، لو راوح بہما کان أحب إلي۔ (أخرجہ عبد الرزاق الصنعاني في مصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵، رقم: ۳۳۰۶)

عن عیینۃ بن عبد الرحمن، قال: کنت مع أبي في المسجد، فرأی رجلاً صافاً بین قدمیہ، فقال: الزق إحداہما بالأخری، لقد رأیت في ہذا المسجد ثمانیۃ عشر من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ما رأیت أحداً منہم فعل ہذا قط۔ (أخرجہ مصنف ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ من کان راوح بین قدمیہ في الصلاۃ: ج ۲، ص: ۱۰۹، رقم: ۷۰۶۳)
وقال الکمال: وینبغي أن یکون بین رجلیہ حالۃ القیام قدر أربع أصابع۔ (فخر الدین بن عثمان، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشیۃ الشلبي، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴)
ویسن تفریج القدمین في القیام قدر أربع أصابع؛ لأنہ أقرب إلی الخشوع۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۹۸)
وینبغي أن یکون بینہما مقدار أربع أصابع الید؛ لأنہ أقرب إلی الخشوع، ہکذا روي عن أبي نصر الدبوسي إنہ کان یفعلہ، کذا في الکبری۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۱)
ویکرہ أن یلصق إحدی قدمیہ بالأخری في حال قیامہ؛ لما روي الأثرم،  عن عیینۃ بن عبد الرحمن، قال: کنت مع أبي في المسجد، فرأی رجلاً یصلي، قد صف بین قدمیہ، وألزق إحداہما بالأخری، فقال أبي: لقد أدرکت في ہذا المسجد ثمانیۃ عشر رجلاً من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما رأیت أحداً منہم فعل ہذا قط۔ وکان ابن عمر لا یفرج بین قدمیہ ولا یمس إحداہما بالأخری، ولکن بین ذلک، لا یقارب ولا یباعد۔ (ابن قدامۃ، المغني: ج ۲، ص: ۹)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  414

answered Jan 16 by Darul Ifta
...