24 views
کیا مقتدی پر امام کی اقتداء دعا میں بھی ضروری ہے؟
(۱۶۱)سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام: مقتدی پر امام کی اقتداء کب تک ہے، صرف نماز میں یا دعامیں بھی ؟بہت سے لوگ دعا میں بھی امام کی اقتداء کو ضروری سمجھتے ہیں اس لیے جب امام دعا شروع کرے تو ہاتھ اٹھاتے ہیں اور جب امام دعا ختم کرتے ہیں تو مقتدی بھی دعا ختم کرتے ہیں، ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: عبد الکریم، امام مسجد قیام پور
asked Jan 16 in نماز / جمعہ و عیدین by javed1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی اقتداء تکبیر تحریمہ سے شروع ہو کر سلام تک ہے۔ سلام کے بعد امام اور اقتداء کا تعلق ختم ہو جاتا ہے، دعا میں اقتداء ضروری نہیں ہے، نماز کے بعد دعا کرنا احادیث سے ثابت ہے اور یہ وقت دعا کی قبولیت کا ہے، اس لیے دعا کا اہتمام ہونا چاہئے اور جب سب ہی لوگ کریں گے تو اجتماعی صورت پیدا ہو جائے گی، اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ لیکن یہ نماز والی اقتداء نہیں ہے نہ ہی اس کو لازم سمجھنا درست ہے۔(۱)
’’عن معاذ بن جبل أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ وقال یا معاذ واللّٰہ أني لأحبک فقال: أوصیک یا معاذ لا تدعن في دبر کل صلاۃ تقول: اللہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک‘‘(۲)

(۱) عن علي رضي اللّٰہ عنہ: عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: مفتاح الصلاۃ الطہور وتحریمہا التکبیر وتحلیہا التسلیم، قال أبو عیسیٰ ہذا الحدیث أصح شيء في ہذا الباب۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء أن مفتاح الصلاۃ الطہور‘‘: ج ۱، ص: ۵، رقم: ۳)
عن المغیرۃ بن شعبۃ رضي اللّٰہ عنہما أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول: في دبر کل صلاۃ مکتوبۃ: لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وہو علی کل شيء قدیر۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۶، رقم: ۸۴۴)
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في الاستغفار‘‘: ج۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۱۵۵۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص427

 

answered Jan 17 by Darul Ifta
...