159 views
نماز کے بعد امام کا مقتدیوں کی طرف رخ کرنے کا حکم:
(۱۶۶)سوال: حضرت مفتی صاحب! سلام مسنون: مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ عصر اور فجر کی نماز کے بعد امام کا مقتدیوں کی طرف رخ کر کے بیٹھنا کیسا ہے؟ دائیں طرف بیٹھنا چاہئے یا بائیں طرف یا مقتدیوں کی طرف؟ براہ کرم اس کی رہنمائی فرمائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی:  محمد جاوید علی، مراد نگر، یوپی
asked Jan 16 in نماز / جمعہ و عیدین by javed1

1 Answer

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  صورت مسئولہ میں عصر اور فجر کی نماز کے بعد رخ پھیر کر بیٹھنا جائز ہے اور یہ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھ لیتے تھے تو اپنا رخِ انور مقتدیوں کی طرف کر لیا کرتے تھے۔ تاہم دائیں طرف رخ کر کے بیٹھنا اولیٰ اور افضل ہے مگر اس پر مداومت نہ کی جائے کبھی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف مڑ کر امام کو بیٹھنا چاہئے تاکہ عوام دائیں رخ کر کے بیٹھنے کو ضروری نہ سمجھ لیں ایسے ہی اگر کوئی مقتدی نماز نہ پڑھ رہا ہو تو اس صورت میں مقتدیوں کی طرف رخ کر کے بیٹھنا بھی جائز ہے۔
’’عن سمرۃ بن جندب، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی صلاۃ  أقبل علینا بوجہہ‘‘(۱)
’’عن البراء قال: کنا إذا صلّینا خلف رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحببنا أن نکون عن یمینہ؛ یقبل علینا بوجہہ۔ قال: فسمعتہ یقول: ’’ربّ قني عذابک یوم تبعث أو تجمع عبادک‘‘(۲)
’’وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل (الناس) إن شاء إن لم یکن في مقابلۃ مصل؛ لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجہہ، وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ جعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ، وہذا أولٰی؛ لما في مسلم: کنا إذا صلّینا خلف رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ … الخ‘‘(۳)
’’و یستحب أن یستقبل بعدہ أي بعد التطوع وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل الناس إن شاء إن لم یکن في مقابلۃ مصل لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجہہ وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ وجعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ وہذا أولٰی لما في مسلم: کنا إذا صلینا خلف رسول اللّٰہ أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ‘‘(۴)

(۱)عن أنس بن مالک، قال: أخَّرَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصلاۃ ذات لیلۃ إلی شطر اللیل، ثم خرج علینا، فلما صلی أقبل علینا بوجہہ، فقال: إن الناس قد صلوا ورقدوا، وإنکم لن تزالوا في صلاۃ ما انتظرتم الصلاۃ، (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب یستقبل الإمام الناس إذ ا سلم‘‘: ج۱، ص: ۱۱۷، رقم: ۸۴۷)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب استحباب یمین الإمام‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۷، رقم: ۷۰۹۔
(۳) حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع الطحطاوی، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ص: ۱۱۷۔
(۴) أیضاً: ص: ۱۱۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص431

 

answered Jan 17 by Darul Ifta
...