الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی مصلحت کے تحت کبھی مخصوص طریقہ پر پڑھ لیا جائے تو حرج نہیں؛ لیکن اس کو لازم سمجھنا اور اس پر دوام اور استمرار درست نہیں؛ اس لیے غیر لازم چیز کو لازم سمجھنا شرعاً جائز نہیں(۱) آیت کریمہ (مذکورہ فی السوال) کے سنتے ہی درود فرض نہیں ہے۔(۲)
(۱) لأن الشارع إذا لم یعین علیہ شیئاً تیسیرًا علیہ کرہ لہ أن یعین۔ (ابن عابدین، رد الحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵، زکریا دیوبند)
(۲) ولو قرأ القرآن فمر علی إسم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ فقراء ۃ القرآن علی تالیفہ ونظمہ أفضل من الصلوٰۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ في ذلک الوقت فإن فرغ ففعل فہو أفضل وإن لم یفعل فلا شيء علیہ کذا في الملتقط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح‘‘: ج ۵،ص: ۳۶۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص436