الجواب و باللہ التوفیق: مسجد میں درسِ قرآن یا درسِ حدیث دینے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ نیکی اور ثواب کا ذریعہ ہے؛ البتہ درس کی اطلاع وقت سے قبل ہی دے دی جائے تاکہ جو لوگ درس میں شریک نہ ہونا چاہیں وہ اپنی نماز مکمل کر کے گھر جا سکیں، ایسے ہی نمازی حضرات بھی فرض نماز کی ادائیگی کے بعد سنن ونوافل ایک طرف ہو کر ادا کریں تاکہ درس کے سبب ان کو سنن ونوافل کی ادائیگی میں کسی دقت اور دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے بہر حال نماز کے بعد درسِ قرآن یا درسِ حدیث اور ذکر واذکار میں مشغول ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہے، جیسا کہ امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور اس کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوکر ایک مؤثر اور عمدہ نصیحت فرمائی۔
’’صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم صلاۃ الصبح ثم أقبل علینا بوجہہ فوعظنا موعظۃ بلیغۃ‘‘(۱)
’’وفي حاشیۃ الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفًا وخلفًا علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا، إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قاریٔ الخ‘‘(۲)
(۱) أخرجہ ابن ماجہ في سننہ، ’’باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین‘‘: ج ۱، ص: ۱۷، رقم: ۴۴۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في رفع الصوت بالذکر‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص437