الجواب وباللّٰہ التوفیق: آہستہ اور پست آواز سے دعا مانگنا افضل ہے(۱) مقتدی دعا یا دکرلیں یا دعائیہ جملہ ختم ہونے پر مقتدی آمین کہ سکیں اس غرض سے ذرا آواز سے دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۲) وہ بھی اس شرط سے کہ نمازیوں کا حرج نہ ہو؛ ورنہ تو اس طرح دعا مانگنا کہ نمازیوں کو تشویش ہو ان کی نماز میں خلل واقع ہو اس طرح دعا مانگنا جائز نہیں ہے، اس سے امام بھی گناہگار ہوگا جو لوگ امام کو اس طرح دعاء مانگنے پر مجبور کریں گے وہ بھی گناہگار ہوں۔(۳)
(۱) {ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ إنہ لایحب المعتدین} (سورۃ الاعراف: ۵۵)، تضرعا یعني ادعوا ربکم تذللا واستکانۃ، وہو إظہار الذل في النفس والخشوع، یقال: ضرع فلان لفلان إذا أذل لہ وخشع، وقال الزجاج: تضرعا یعني تملقا وحقیقتہ أن ندعوہ خاضعین خاشعین متعبدین بالدعاء لہ تعالی وخفیۃ یعني سرا في أنفسکم وہو ضد العلانیۃ والأدب في الدعاء أن یکون خفیا لہذہ الآیۃ، قال الحسن: بین دعوۃ السرودعوۃ العلانیۃ سبعون ضعفا ولقد کان المسلمون یجتہدون في الدعاء ولا یسمع لہم صوت إن کان إلا ہمسا بینہم وبین ربہم وذلک أنہ تعالیٰ یقول ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ وأن اللّٰہ تعالیٰ ذکر عبدا صالحا رضي فعلہ فقال تعالیٰ: إذ نادی ربہ بداء خفیا (ق) وعن أبي موسی الأشعري رضي اللّٰہ عنہ قال: کنا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فجعل الناس یجہرون بالتکبیر فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیہا الناس إربعوا علی أنفسکم إنکم لاتدعون أصم ولا غائبا، إنکم تدعون سمیعا بصیرا وہو معکم والذي تدعونہ أقرب إلی أحدکم من عنق راحلتہ۔ (تفسیر الخازن، سورۃ الأعراف، ۵۵، ج ۲، ص: ۲۱۰)
واختار مشایخنا بما وراء النہر الإخفاء في دعاء القنوت في حق الإمام والقوم جمیعا لقولہ تعالیٰ {ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ} (الأعراف: ۵۵)، وقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خیر الدعاء الخفي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۴؛ ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶)
(۲) إذا دعانا بالدعاء المأثور جہراً ومعہ القوم أیضاً لیتعلموا الدعاء لا بأس بہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح وقراء ۃ القرآن‘‘: ج ۵، ص: ۳۹۳)
(۳) {ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ إنہ لایحب المعتدین} (سورۃ الاعراف: ۵۵)، تضرعا یعني ادعوا ربکم تذللا واستکانۃ، وہو إظہار الذل في النفس والخشوع، یقال: ضرع فلان لفلان إذا أذل لہ وخشع، وقال الزجاج: تضرعا یعني تملقا وحقیقتہ أن ندعوہ خاضعین خاشعین متعبدین بالدعاء لہ تعالی وخفیۃ یعني سرا في أنفسکم وہو ضد العلانیۃ والأدب في الدعاء أن یکون خفیا لہذہ الآیۃ قال الحسن بین دعوۃ السرودعوۃ العلانیۃ سبعون ضعفا ولقد کان المسلمون یجتہدون في الدعاء ولا یسمع لہم صوت إن کان إلا ہمسا بینہم وبین ربہم وذلک أنہ تعالیٰ یقول: ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ وأن اللّٰہ تعالیٰ ذکر عبدا صالحا رضي فعلہ فقال تعالیٰ: إذ نادی ربہ نداء خفیا (ق) وعن أبي موسی الأشعري رضي اللّٰہ عنہ قال: کنا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فجعل الناس یجہرون بالتکبیر فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أیہا الناس أربعوا علی أنفسکم إنکم لاتدعون أصم ولا غائبا، إنکم تدعون سمیعا بصیرا وہو معکم والذي تدعونہ أقرب إلی أحدکم من عنق راحلتہ۔ (تفسیر الخازن، سورۃ الأعراف، ۵۵، ج ۲، ص: ۲۱۰)
واختار مشایخنا بما وراء النہر الإخفاء في دعاء القنوت في حق الإمام والقوم جمیعا لقولہ تعالی {ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ} (الأعراف: ۵۵)، وقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خیر الدعاء الخفي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۴؛و ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص441