الجواب وباللہ التوفیق: فرض نماز کے بعد دعاء کرنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور یہ دعاء کی قبولیت کا وقت ہے جس کا تقاضا ہے کہ ہر فرض نمازپڑھنے والا فرض نماز پڑھ کر دعا کرے اور اس وقت یہ دعا کرنا درست ہے اور اکابر علماء کا معمول بھی ہے، البتہ جماعت ہو جانے کے بعد امام اور مقتدی کے درمیان اقتداء کا تعلق ختم ہو جاتا ہے، اس لیے انفرادی طور پر بھی دعاء کی جا سکتی ہے؛ لیکن دعاء کرنے میں اگر اجتماعی ہیئت بن جائے تو اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ تاہم اس کا معمول نہ بنایا جائے۔
’’قال اللّٰہ تعالیٰ: {فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَب ہلا۷ }(۲)
’’وقال قتادۃ فإذا فرغت من صلاتک فانصب إلیٰ ربک في الدعاء‘‘(۱)
’’عن معاذ بن جبل أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ وقال یا معاذ واللّٰہ إني لأحبک فقال: أوصیک یامعاذ لاتدعن في دبر کل صلاۃ تقول: ’’اللہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک‘‘(۲)
’’وعن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سلم من الصلاۃ قال اللہم اغفرلي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أسرفت وما أنت أعلم بہ مني، أنت المقدم وأنت المؤخر لا إلہ إلا أنت‘‘(۳)
(۲) سورۃ الم نشرح: ۷۔
(۱) أبوبکر الجصاص، أحکام القرآن، ’’سورۃ القدر: ۳‘‘: ج ۳، ص: ۸۱۳۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في الاستغفار‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۱۵۲۲۔
(۳) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یقول الرجل إذا سلم‘‘ ج ۱، ص: ۲۱۲، رقم: ۱۵۰۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص448