34 views
دعا میں ہاتھ اٹھانے کا حکم:
(۱۸۳)سوال: حضرات علمائے کرام: مسئلہ پوچھنا ہے کہ نماز کے بعد یا کسی بھی وقت جو دعا کی جاتی ہے اس میںہاتھ کہاں تک اٹھایا جائے؟ نیز دونوں ہاتھوں کو آپس میں ملا کر رکھنا چاہئے یا دونوں ہاتھوں کے درمیان فاصلہ بھی رہے گا؟ شرعی رہنمائی فرمائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد صلاح الدین، بھوپال
asked Jan 16 in نماز / جمعہ و عیدین by javed1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:واضح رہے کہ آدابِ دعاء یہ ہے کہ بوقت دعا دونوں زانوں پر بیٹھے اور دونوں ہاتھوں کو سینے کے بالمقابل اٹھا کر دونوں ہاتھوں کے درمیان کچھ فاصلہ رکھے (دونوں ہاتھوں کو ملانا خلاف اولیٰ ہے) اور ہتھیلی کے اندرونی حصے سے دعاء مانگے اوردعا کے بعد اپنے چہرے پر دونوں ہاتھوں کو دعا کی قبولیت اور یقین کے ساتھ پھیرلے؛ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، ’’اللہ سے مانگو تو قبولیت کے یقین سے مانگو اور یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ غافل اور لا پرواہ دل کی دعا قبول نہیں کرتا ہے‘‘: جیسا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت نقل کی ہے:
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: أدعوا اللّٰہ
وأنتم موقنون بالإجابۃ واعلموا أن اللّٰہ لا یستجیب دعاء من قلب غافل لاہ‘‘۔(۱)
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یدعو ہکذا بباطن کفیہ وظاہرہما‘‘۔(۲)
’’والأفضل في الدعاء أن یبسط کفیہ ویکون بینہما فرجۃ، وإن قلت … والمستحب أن یرفع یدیہ عند الدعاء بحذاء صدرہ، کذا في القنیۃ۔ مسح الوجہ بالیدین إذا فرغ من الدعاء … کثیر من مشایخنا رحمہم اللّٰہ تعالیٰ اعتبروا ذلک وہو الصحیح وبہ ورد الخبر إلخ‘‘۔(۳)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب‘‘: ج ۲، ص:۱۸۰، رقم: ۳۴۷۹۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹، رقم: ۱۴۸۷۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح الخ‘‘: ج۵، ص: ۱۸۰۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص449

answered Jan 17 by Darul Ifta
...