177 views
استدراک فتاویٰ جلد اول:
یزید فاسق ہے یانہیں؟
سوال:  کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے:
یزید بن معاویہ کے بارے میں علماء دیوبند کا کیا عقیدہ ہے؟فتاوی دارالعلوم وقف کی پہلی جلد: ص: ۲۳۲؍ پر لکھا ہے کہ علمائے دیوبند یزید کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں جب کہ ہم نے پڑھا ہے کہ یزید متفق علیہ طورپر فاسق ہے۔ علمائے دیوبند میں حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب ؒوغیرہ کا موقف فسق یزید کے سلسلے میں مصرح ہے، پھر فتاوی میں خاموشی کا قول کیوں اختیار کیا گیا؟ یزید کے تعلق سے اکابر علمائے دیوبند کا فیصلہ کن موقف کیا ہے؟ امید کہ تفصیل سے جواب مرحمت فرمائیں گے۔
فقط: والسلام
المستفتی: مولوی محمد ایوب، دہلی
asked Jan 16 in نماز / جمعہ و عیدین by javed1

1 Answer

الجواب و باللّٰہ التوفیق: یزید کے تعلق سے دو قسم کے سوالات عام طورپر پوچھے جاتے ہیں ایک یزید پر لعن طعن کرنے کا او ر دوسرے یزید کے فسق کا،یزید کے لعن طعن کے سلسلے میں علمائے دیوبند کا موقف توقف کا ہے اس لیے کہ اگر کوئی شخص واقعی مستحق لعن ہے تو بھی اس پر لعن طعن کرنا ہمارے لیے ضروری نہیں ہے۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند میں یزید کے بارے میں مطلقاً علمائے دیوبند کاموقف معلوم کیا گیا ہے اس پر یزید کے لعن، طعن کرنے کے مفہوم کو سامنے رکھ کر توقف کا جواب دیا گیا ہے اور لعن طعن سے توقف کرنا یہ علمائے دیوبنداور اہل سنت و الجماعت کا موقف ہے؛ اس لیے کہ جس کے کفر کا یقین ہو اس پر لعن طعن کرنا درست ہے اور جس کے کفر پر یقینی دلائل نہ ہوں اور اس پر لعن کی صراحت نصوص میں نہ ہو اس پر لعن طعن کرنے سے پرہیز کرنا چا ہیے۔ بذل المجہود کے حاشیہ میں حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلویؒ لکھتے ہیں:
’’ہل یجوز لعن یزید حکی القاضي ثناء اللّٰہ في مکتوباتہ أن للعلماء فیہ ثلاثۃ مذاہب: الأول المنع، کما قال الإمام أبوحنیفۃ في الفقہ الأکبر‘‘(۱)
حضرت گنگوہی ؒ سے بھی جو توقف کا قول منقول ہے وہ لعن طعن کرنے کے سلسلے میں ہے: چناںچہ فتاوی رشیدیہ میں لکھتے ہیں:
’’پس بدون تحقیق اس امر کے لعن طعن جائز نہیں؛ لہٰذا وہ فریق علماء کا بوجہ حدیث منع لعن مسلم کے لعن سے منع کرتے ہیں اور یہ مسئلہ بھی حق ہے پس جواز لعن وعدم جواز لعن کا مدار تاریخ پرہے اور ہم مقلدین کو احتیاط سکوت میں ہے؛ کیوں کہ اگر لعن جائز ہے تو لعن نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں؛ لعن نہ فرض ہے نہ واجب نہ سنت نہ مستحب محض مباح ہے او رجو وہ محل نہیں تو خود مبتلا ہونا معصیت کا اچھا نہیں‘‘۔ فقط واللہ اعلم بالصواب(۲)
یزید پر لعنت کے سلسلے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ امداد الفتاوی میں لکھتے ہیں:
’’یزید کے باب میں علماء قدیما و حدیثا مختلف رہے ہیں، بعض نے تو اس کو مغفور کہا ہے اور بعضوں نے اس کو ملعون کہا ہے۔مگر تحقیق یہ ہے کہ چوں کہ معنی لعنت کے ہیں خدا کی رحمت سے دور ہونا اور یہ ایک امر غیبی ہے جب تک شارع بیان نہ فرمادے کہ فلاں قسم کے لوگ یا فلاں شخص خدا کی رحمت سے دور ہے؛ کیوں کر معلوم ہوسکتاہے او رتتبع کلام شارع سے معلوم ہواکہ نوع ظالمین و قاتلین مسلم پر تو لعنت وارد ہوئی ہے۔
’’کما قال تعالٰی: ألَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ، وقال : مَنْ یَّقْتُلْ مُؤمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَائُ ہٗ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیْہَا وَ غَضَبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَأَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا۔‘‘
 پس اس کی توہم کو بھی اجازت ہے او ریہ علم اللہ تعالی کو ہے کہ کون اس نو ع میںداخل ہے اور کون خارج او رخاص کر یزید کے باب میں کوئی اجازت منصوصہ ہے نہیں پس بلا دلیل اگر دعوی کریں کہ وہ خدا کی رحمت سے دور ہے اس میں خطر عظیم ہے؛ البتہ اگر نص ہوتی تو مثل فرعون وہامان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) خلیل أحمد، سہارنپور، ہامش بذل المجہود، ’’کتاب الأدب: باب اللعن‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۸۔
(۲) رشید احمد گنگوہی، فتاوی رشیدیہ، ’’ایمان وکفر کے مسائل، یزید پر لعنت کرنا‘‘: ص: ۸۴، جسیم بک ڈپو دہلی۔
وقارون وغیرہم کے لعنت جائز ہوتی۔
’’وإذا لیس فلیس‘‘(۱)
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ہمیں یزید پر لعنت کرنے نہ کرنے سے بحیثیت مسئلہ کوئی تعرض نہیں، تاہم یہ ضرور ہے کہ مستحق لعنت اشد قسم کا فاسق ہی ہو سکتا ہے: اس لیے یہ استحقاق لعنت کا مسئلہ درحقیقت یزید کے فسق کی ایک مستقل دلیل ہے پس جو دلائل آگے آ رہے ہیں وہ لعنت کی ترغیب دینے کے لیے نہیں ہے؛ بلکہ اس کے فسق کے اثبات کے سلسلے میں ہیں۔(۲)
 حضرت مولانایوسف بنوری رحمہ اللہ‘‘معارف السنن’’میں لکھتے ہیں:
’’ویزید لا ریب في کونہ فاسقاً ولعلماء السلف في یزید وقتلہ الإمام الحسین خلاف في اللعن والتوقف۔ قال ابن الصلاح: فی یزید ثلاث فرق: فرقۃ تحبہ، وفرقۃ تسبہ، وفرقۃ متوسطۃ لا تتولاہ ولا تلعنہ۔ قال: وھذہ الفرقۃ ھي المصیبۃ الخ‘‘(۳)
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی شامی میںتحریرفرماتے ہیں :
’’حقیقۃ اللعن المشھودۃ ھي الطرد عن الرحمۃ، وھي لا تکون الا لکافر، ولذا لم تجز علی معین بدلیل وإن کان فاسقا مشھورا کیزید علی المعتمد، بخلاف نحو إبلیس وأبي لھب وأبي جھل فیجوز، وبخلاف غیر المعین کالظالمین والکاذبین فیجوز أیضا‘‘(۴)
شرح العقائد اور اس کی عربی شرح نبراس میں ہے:
’’إنمااختلفوا في یزید بن معاویۃ حتی ذکر في الخلاصۃ و غیرھا أنہ لاینبغي اللعن علیہ و لا الحجاج (وقال صاحب النبراس تحت قولہ:) واعلم أنہ کثر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) حضرت تھانويؒ، امداد الفتاوی مبوب، ’’کتاب العقائد والکلام‘‘: تحقیق لعن یزید، ج ۵، ص: ۴۲۵۔
(۲) حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ، شہید کربلا اور یزید: ص: ۱۴۰۔
(۳) الکشمیري، معارف السنن،شرح سنن الترمذی: ج ۶، ص: ۸۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الرجعۃ، مطلب في حکم لعن العصاۃ‘‘: ج ۵، ص: ۴۹۔
الاختلاف في ھذا المقام والذي حققہ المحققون ھو أن اللعن ثلاثۃ أقسام: أحدھا: اللعن بالوصف العام الوارد في الشرع نحو لعن اللّٰہ الکفار و الیھود و ھذا جائز۔۔۔۔ ثانیھا: اللعن علی الشخص المعین الذي صح موتہ علی الکفر باخبار الشارع کفرعون و أبي جھل و ابلیس وھو جائز۔ ثالثھا:علی شخص لم یعلم موتہ علی الکفر و ھو لایجوز سواء کان حیّا أو میتا و کان بحسب الظاہر مؤمنا أو کافرا لجواز أن یوفق اللّٰہ سبحانہ الکافر للاسلام (ھذا ما قررہ المحققون…) وبھذا ظہر أن استدلالھم علی لعن یزید بالنصوص العامۃ غیر صحیح و أن معنی اللعن فیھا ھو ذم الفعل لا تجویز لعن کل شخص بفعلہ فاحفظ ھذا التحقیق، ولاتکن من الذین لایراعون قواعد الشرع و یحکمون بأن من نھی عن لعن یزید فھو من الخوارج۔ نعم قبح أفعالہ مشھور و حب أھل البیت واجب لکن النھی عن لعنہ لیس للقصور في حبھم بل لقواعد الشرع‘‘(۱)

اس طرح کی عبارتیں کتب اہل سنت والجماعت میں کثرت سے موجود ہیں؛ اس لیے احوط قول یہی ہے کہ یزید پر لعن و طعن کے سلسلے میں توقف کیا جائے۔ جہاں تک یزید کے عادل او رفاسق ہونے کا مسئلہ ہے اس سلسلے میں بھی اہل علم کا اختلاف ہے بعض لوگ اسے فاسق نہیں مانتے ہیں اور ان کے پاس بھی دلائل ہیں تاہم اہل سنت والجماعت کی اکثریت، اسی طرح اکابر علماء دیوبند کا عمومی رخ یزید کے فاسق ہونے کے سلسلے میں ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ؒنے یزید کے فاسق ہونے پر اتفاق نقل کیا ہے۔ حجۃ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نور اللہ مرقدہٗ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت شیخ لاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ، علامہ انور شاہ کشمیریؒ، علامہ یوسف بنوری رحمہم اللہ اسی طرح بہت سے اکابر علماء دیوبند نے یزید کے فسق کی تصریح کی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ حجۃ اللہ البالغہ میںیزید کے فسق پر اتفاق نقل کرتے ہوئے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) محمد عبد العزیز الفرہاري،  النبراس، شرح شرح العقائد النسفیۃ،ص: ۵۲۹، ۵۳۲۔
لکھتے ہیں:
’’ومن القرون الفاضلۃ اتفاقا من ہو منافق أو فاسق ومنہا الحجاج۔ ویزید بن معاویۃ۔ ومختار۔ وغلمۃ من قریش الذین یہلکون الناس وغیرہم ممن بین النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم سوء حالہم‘‘(۱)
شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
پس انکار کیا امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے؛ کیوں کہ وہ فاسق، شرابی و ظالم تھا۔ اور امام حسین مکہ تشریف لے گئے۔(۲)
حضرت قاسم العلوم مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر شہادت حسین اور کردار یزید کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے۔ یہ رسالہ فارسی زبان میں ہے، پروفیسر انوار الحسن خان شیرکوٹی نے اس کا ترجمہ کیا ہے، اس رسالہ میں حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید کے حالات پر تفصیلی اور علمی گفتگو کی ہے او رحضرت امیر معاویہؓ کا دفاع کرتے ہوئے فسق یزید کی تصریح کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ کو اس کے فسق کا علم نہیں تھا اور جنگ میں اس کی بہادری مسلم تھی، پھر یزید کے فسق کا زیادہ ظہور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ہوا تھا۔ چناں چہ لکھتے ہیں:
’’اسی طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے یزید پلید کو ولی عہد بنانے میں بھی کوئی خدشہ موجب انکار نہ نکلا۔ آگے تحریر فرماتے ہیں: جس وقت کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید پلید کو اپنا ولی عہد بنایا تھا تو وہ علانیہ فاسق نہ تھا اگر اس نے کچھ کیا ہوگا تو در پردہ کیا ہوگا کہ حضرت امیر معاویہ کو اس کی خبر نہ ہوگی علاوہ ازیں جہاد میں یزید کا حسن تدبر جیسا کہ اس سے دیکھا گیا مشہور ہے۔ آگے تحریر فرماتے ہیں: ہاں ان کے انتقال کے بعد یزید نے پر پرزے نکالنے شروع کیے اور دل کو خواہش نفس اور ہاتھ کو جام شراب پر لے گیا فسق کھلم کھلا کرنے لگا اور نماز چھوڑ دی بعض سابقہ تمہیدوں کی بناپر معزول
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱)شاہ ولي اللّٰہ محدث الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ: ج ۲، ص: ۳۳۳۔
(۲) شاہ عبد العزیز الدہلوي، سر الشہادتین: ص: ۱۲۔

کردینے کے قابل ہوگیا۔(۱)
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں:
یزید فاسق تھا اور فاسق کی ولایت مختلف فیہ ہے دوسرے صحابہؓ نے جائز سمجھا حضرت امام نے ناجائز سمجھا اور گو اکراہ میں انقیاد جائز تھا مگر واجب نہ تھا او رمتمسک بالحق ہونے کے سبب یہ مظلوم تھے او رمقتول مظلوم شہید ہوتاہے، شہادت غزوہ کے ساتھ مخصوص نہیں بس ہم اسی بنائے مظلومیت پر ان کو شہید مانیں گے باقی یزید کو اس قتال میں اس لیے معذور نہیں کہہ سکتے کہ وہ مجتہد سے اپنی تقلید کیوں کراتا بالخصوص جب کہ حضرت امام آخر میں فرمانے بھی لگے تھے کہ میں کچھ نہیں کہتا اس کو تو عداوت ہی تھی، چناں چہ امام حسینؓ کے قتل کی بنا یہی تھی اور مسلط کی اطاعت کا جواز الگ بات ہے مگر مسلط ہونا کب جائز ہے خصوصاً نااہل کو اس پر خود واجب تھا کہ معزول ہوجاتا پھر اہل حل و عقد کسی کو خلیفہ بناتے۔(۲)
حکیم الاسلام حضر ت مولاناقاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر شہید کربلا اور یزید کے عنوان سے کتاب لکھی ہے یہ کتاب در حقیقت محمود عباس کی کتاب خلافت معاویہ ویزید کے رد میں لکھی گئی ہے، محمود عباس نے یزید کو خلیفہ برحق اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خروج کنندہ اور باغی ثابت کیا ہے اس کے جواب میں حضرت حکیم الاسلامؒ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا برحق ہونا اور یزید کا فاسق ہونا ثابت کیا ہے، کتاب کے آغاز میں خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ کتاب جماعت علماء دیوبند کے متفقہ مسلک حق کی ترجمانی ہے، اس کتاب میں حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ یزید کے فسق کی صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یزید کا ذاتی فسق وفجور بھی کچھ کم نہ تھا دیانات میں اس کا قصور اور فتور حافظ ابن کثیر، فقیہ الہراس وغیرہ نے نہایت صفائی سے نقل کیا ہے جو کسی موقع پر آئے گا؛ لیکن جس فسق نے اسے مبغوض خلائق بنایا وہ اس کا اجتماعی رنگ کا فسق تھا جس نے امت میں فتور پیدا کر دیا ذاتی فسق سے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱)حضرت نانوتويؒ، شہادت امام حسین وکردار یزید: ص: ۷۹۔
(۲) أشرف علي التھانويؒ، إمداد الفتاویٰ، مسائل شتی، رفع شبہ در شہادت إمام حسینؓ: ج ۴، ص: ۴۶۳۔
 تو محض ذات تباہ ہو جاتی ہے؛ لیکن اجتماعی فسق سے امت اور اجتماعیت تباہ ہو کر رہ جاتی ہے؛ اس لیے علماء اور فقہاء نے زیادہ یزید کے اسی فسق کا ذکر کیا ہے اور اس پر احکام مرتب کیے ہیں پھر اس میں بھی قبیح ترین جس نے امت میں اس کی طرف ذہنی اشتغال پیدا کر دیا وہ قتل حسین جو اس کی امارت کا شاہ کار ہے۔(۱)
ایک دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں:
اختلاف اگر ہے تو یزید کی تکفیر میںہے تفسیق نہیں اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جب کہ یزید کے کفر کے قائل ہو گئے تو فسق کے بطریق اولیٰ تسلیم کیے جائیں گے، اس لیے یزید کے فسق پر اتفاق علماء کے ساتھ امام مجتہد کی مہر بھی لگ جاتی ہے۔(۲)
 مولانا رشید احمد گنگوہی فرماتے ہیں:
 بعض ائمہ نے جو یزید کی نسبت کفر سے کف لسان کیا ہے وہ احتیاط ہے؛کیوں کہ قتل حسین کو حلال جاننا کفر ہے تو مگر تحقیق سے یہ ثابت نہیں کہ یزید قتل حسین کوحلال جانتا تھا؛ لہٰذا کافر کہنے سے احتیاط رکھے مگر فاسق بے شک تھا۔(۳)
شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے ایک تفصیلی مقالہ اس عنوان پر لکھاہے جو 1958 کے ماہانہ رحیق لاہو رمیںشائع ہوا اس مقالہ میں حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سوال کا جواب دیا ہے جس میںان سے پوچھا گیا تھا کہ حضرت امیر معاویہؓ نے یزید کو اپنا ولی عہد بنایا تھا یا نہیںاور بنایا تو کیوں؟ اس جواب میں حضرت مدنیؒ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب پر تفصیلی کلام کیا ہے، جس سے میں ضمنی طورپر یہ ثابت ہوتاہے کہ یزید کے فسق وفجور کی اطلاع حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہیں تھی۔ چناں چہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
کیوں نہ کہاجائے کہ خود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایسا نہیں کیا؛ بلکہ خود یزید او راس کے اعوان نے اس کے لیے کوشش کی (یہ لوگ متقی نہ تھے اور ملوکیت پسند تھے) عام مسلمان اور بالخصوص
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) حکیم الاسلام، شہید کربلا اور یزید: ص: ۱۲۶۔
(۲) أیضاً: ص: ۱۸۹۔
(۳)رشید احمد گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ، ’’کتاب الکفر والإیمان‘‘: یزید کو کافر کہنا: ص: ۶۳۔
اہل حجاز اس کے خلاف تھے۔ آگے تحریر فرماتے ہیں: تاریخ شاہد ہے کہ معارک عظیمہ میں یزید نے کارہائے نمایاں انجام دیے تھے اس کے فسق و فجور کا علانیہ ظہور ان (حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ) کے سامنے نہ ہوا تھا او رخفیہ جو بد اعمالیاں وہ کرتاتھا اس کی ان کو اطلاع نہ تھی ایک وہ شخص جو کہ فقیہ فی الاسلام ہے حسب دعوات مستجابہ ہادی اور مہدی ہے کیا وہ کسی مجاہر بالفسق والعصیان کو عالم اسلامی کی رقاب او راموال وغیرہ کا ذمہ دار کرسکتا ہے۔(۱)
خلاصہ: یہ ہے کہ لعن طعن میں اختلاف ہے اور دونوں طرف دلائل ہیں، حضرات علمائے دیوبند نے لعن طعن سے توقف کو راجح قراردیا ہے جہاں تک یزید کے فاسق ہونے نہ ہونے کا معاملہ ہے اس میں بھی اختلاف ہے اور بعض حضرات اہل علم یزید کو فاسق نہیں مانتے ہیں جب کہ راجح فاسق ہونا ہے اور اکابر علماء دیوبند کا مسلک یہی معلوم ہوتا ہے۔
(۱) مضمون حضرت مولانا حسین احمد مدنی، رحیق لاہور، جون: ۱۹۵۸ء؁
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص451

answered Jan 17 by Darul Ifta
...