الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ عمل بلا کراہت جائز ہے، ’’أما الاقتداء بالمخالف في الفروع کالشافعي فیجوز الخ‘‘ (شامی ج۱، ص ۵۶۳) البتہ اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو کسی حنفی عالم سے دریافت کرلیا جائے کہ اس عمل میں اقتدا کی جائے گی یا نہیں۔(۲)
(۲) وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف، وکل بروفاجر مالم یکن مبتدعا بدعۃ یکفر بہا، ومالم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ اھـ، وإذا لم یجد غیر المخالف ……فلا کراہۃ في الاقتداء بہ، والاقتداء بہ أولی من الإنفراد علی أن الکراہۃ لا تنافي الثواب، افادہ العلامہ نوح۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي، ’’فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، دارالکتاب دیوبند؛ و إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ص: ۴۴۴،د ارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص306