55 views
عشاء کے فاسد ہونے کی صورت میں وتر کی قضاء کا حکم:
(۱۱)سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:
 اگر کوئی آدمی عشاء کی مکمل نماز ادا کرے پھر اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کی صرف عشاء کی نماز نہیں ہوئی اگر یہ شخص اس عشاء کی نماز کو صبح صادق سے پہلے پہلے ادا کرتا ہے، تو اس شخص کے لیے وتر کا لوٹانا بھی ضروری ہے یا نہیں؟ اور اگر اگلے دن پڑھے، تو کس طرح پڑھے؟ مسئلہ کی مکمل تحقیق مع وضاحت ومع دلائل ومع اختلاف عنایت فرمائیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: راشد، دہلی
asked Jan 29 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: وتر کی نماز امام صاحبؒ کے نزدیک واجب ہے اور صاحبینؒ کے نزدیک سنت ہے، سنت فرض کے تابع ہوتی ہے،اگر فرض نماز نہیں ہوئی تو فرض کے ساتھ سنت کا بھی اعادہ کرنا ہوتا ہے،واجب فرض کے تابع نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے اگر فرض کا اعادہ کرنا ہو، تو واجب کے ا عادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس اصول کی روشنی میں اگر کسی کی عشاء کی نماز کسی وجہ سے فاسد ہو جائے اور وتر کی نماز صحیح ہو، تو صاحبینؒ کے مذہب کے مطابق صبح صادق سے پہلے اگر عشاء کا اعادہ کرے، تو وتر کا بھی اعادہ کرنا ہوگا اور اگر صبح صادق کے بعد عشاء کی قضاء کرے، تو سنت کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، لیکن امام صاحب کے مذہب کے مطابق کسی صورت میں وتر کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اور متاخرین نے امام صاحب کے قول پر فتوی دیا ہے؛ اس لیے اگر کسی نے عشاء کی نماز بلا وضو کے یا ناپاکی کی حالت میں پڑھی، پھر اس نے پاکی کی حالت میں وتر کی نماز پڑھی، بعد میں معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز نہیں ہوئی ہے، تو صرف عشاء کی نماز لوٹانی ہوگی وتر لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’وعند أبي حنیفۃ وقتہ وقت العشاء؛ لأن الوتر عندہ فرض عملا، والوقت إذا جمع بین صلاتین واجبتین کان وقتا لہما جمیعا کالفائتۃ والوقتیۃ۔ فإن قیل: لو کان وقت الوتر وقت العشاء لجاز تقدیمہ علی العشاء۔ أجاب بقولہ (إلا أنہ لا یقدم علیہ عند التذکر) یعني إذا لم یکن ناسیا (للترتیب) وعلی ہذا: إذا أوتر قبل العشاء متعمدا أعاد الوتر بلا خلاف، وإن أوتر ناسیا للعشاء، ثم تذکر لا یعیدہ عندہ؛ لأن النسیان یسقط الترتیب ویعیدہ عندہما؛ لأنہ سنۃ العشاء کرکعتي العشاء، فلو قدم الرکعتین علی العشاء لم یجز عامدا کان أو ناسیا، فکذلک الوتر‘‘(۱)
’’إن أوتر في وقت العشاء قبل أن یصلی العشاء و ہو ذاکر لذلک لم یجز بالاتفاق، و في  الکافي: ولو صلی العشاء بلا وضو ثم توضأ و صلی السنۃ و الوتر، ثم علم أنہ صلی العشاء بلا وضوء، یعید العشاء عندہ۔ و السنۃ و لایعید الوتر وعندہما یعید الوتر، أیضاً‘‘(۲)

(۱) محمد بن محمد أکمل الدین البابرتي، العنایۃ شرح الہدایۃ: ج ۲، ص: ۲۲۴۔
(۲) فرید الدین، الفتاوی التاتارخانیۃ: ج ۲، ص: ۲۹۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص307

answered Jan 29 by Darul Ifta
...