56 views
یہ بات تو مشہور ہے کہ اصحاب کہف کے ساتھ رہنے والا جانور کتا تھا اور جمہور کا قول بھی یہی ہے، مگر کئی کتابوں میں یہ بات بھی موجود ہے کہ انکے ساتھ رہنے والا شیر تھا جیسا کہ تفسیر بغوی، تفسیر روح المعانی، تفسیر الدر المنثور، تفسیر طبری میں اور دیگر کتب تفاسیر میں نکل کیا گیا کہیں ابن جریج سے تو کہیں انکے علاوہ کے ذریعہ حتٰی کے بعض مفسرین کی نگاہ میں اس جانور کو چیتا بھی کہا گیا یا کسی نے تو اسے طباخ ہی کہ دیا( سورۃ الکہف، آیت ۱۸ کی تفسیر میں دیکھ لیا جائے)۔ تو ان اقوال مفسرین کے بارے میں کیا رائے ہوگی اور جمہور کے قول سے ہٹ کر اُسے شیر کہنے والے کے بارے میں کیا رائے ہوگی اور ایسا کہنے والے پر کیا حکم لگایا جائیگا۔
۲.
 اگر کوئی جمہور کے قول سے ہٹ کر اپنی رائے ان حوالے میں دی گئیں تفسیر کی روشنی میں اس جانور کو شیر کہے تو کیا غلط ہوگا؟ اور ایسے شخص پر کیا حکم لگایا جائیگا وضاحت سے بتائیں۔
asked Jan 29 in قرآن کریم اور تفسیر by Mohammad Umar

1 Answer

Ref. No. 2815/45-4402

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اصحاب کہف کے ساتھ غار میں جو کلب تھا اس سے مراد کتاہے ،اس لیے کلب کے متعارف معنی کتا کے آتے ہیں اورذہن کلب سے کتا ہی طرف سبقت کرتاہے جمہور مفسرین نے بھی کلب سے کتاہی مراد لیا ہے ہاں ابن جریج وغیرہ کا قول شیر یا چیتاکے بارے میں بھي منقول ہے لیکن اہل علم سے اس قول کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے اس طرح ہم کتب تفاسیرمیں ایک آیت کی مختلف تفاسیر دیکھتے ہیں لیکن جمہور نے جس قول کولیا ہے اسی پر اعتماد کیا جاتاہے انفرادی اقوال پر نہیں ۔ہاں تفسیر کرتے اس طرح کہنا کہ عام مفسرین نے کلب سے کتا مراد لیا ہے لیکن بعض مفسرین نے یا مثلا ابن جریج نے کلب سے شیر مراد لیا ہے تو اس طرح کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔لیکن جمہور کے قول کی تردید کرتے ہوئے اس طرح کہنا کہ کتا نہیں شیر تھا یہ غلط تفسیر ہے کسی نے بھي اس طرح نہیں کہا ہے اور اس انفرادی قول کے متعین کرنے اور جمہور کے قول کو غلط قرار دینے کی کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے ۔تفسیر ابن کثیر میں بھي کلب سے کتا ہی مراد لیا ہے ۔وقد قيل: إنه كان كلب صيد لأحدهم، وهو الأشبه. وقيل: كان كلب طباخ الملك، وقد كان وافقهم على الدين فصحبه كلبه فالله أعل(تفسیر ابن کثیر5/144) في {كلبهم} قولان: أحدهما: أنه كلب من الكلاب كان معهم , وهو قول الجمهور. وقيل إن اسمه كان حمران. الثاني: أنه إنسان من الناس كان طباخاً لهم تبعهم , وقيل بل كان راعياً. (تفسیر ماوردی،3/292) اختلف أهل التأويل في الذي عنى الله بقوله: (وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ) فقال بعضهم: هو كلب من كلابهم كان معهم، وقد ذكرنا كثيرا ممن قال ذلك فيما مضى، وقال بعضهم: كان إنسانا (1) من الناس طباخا لهم تَبِعهم.(تفسیر طبری،17/624) وَكَلْبُهُمْ باسِطٌ ذِراعَيْهِ قال ابن عباس: كان كلبا أغر وعنه أنه كان فوق القلطي ودون الكرزي. والقلطي كلب صيني وقيل كان أصفر وقيل كان شديد الصفرة يضرب إلى حمرة، وقال ابن عباس: كان اسمه قطمير وقيل ريان وقيل صهبان قيل ليس في الجنة دواب سوى كلب أصحاب الكهف وحمار بلعام بِالْوَصِيدِ أي فناء الكهف، وقيل عتبة الباب وكان الكلب قد بسط ذراعيه وجعل وجهه عليهم، (تفسیر خازن ،3/160)أكثر أهل التفسير على أنه كان من جنس الكلاب. وروي عن ابن جريج: أنه كان أسدا وسمي الأسد كلبا.«1347» فإن النبي صلى الله عليه وسلم دعا على عتبة بن أبي لهب فقال: «اللهم سلط عليه كلبا من كلابك» ، فافترسه أسد، والأول المعروف، قال ابن عباس: كان كلبا أغر [4] . ويروى عنه [أنه] [5] فوق القلطي ودون الكردي [6] ، والقلطي كلب صيني. وقال مقاتل: كان أصفر. وقال القرظي: كانت شدة صفرته تضرب إلى الحمرة. وقال الكلبي: لونه كالحليج. وقيل: لون الحجر(تفسیر بغوی ،3/183)
ان تمام تفاسیر میں اگرچہ شیر کا ایک قول اور ایک رائے ابن جریج کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے لیکن کسی بھی مفسرنے بھی کتا ہونے کا انکار نہیں کیا ہے اس لیے اگر اس قول کو بیان کیاجائے تو اسی طرح بیان کرنا مناسب ہوگا کہ اصحاب کہف کا کتاتھا جمہور کی یہی رائے ہے جب کہ ایک رائے بعض مفسرین کی یہ بھی ہے کہ وہ شیرتھا۔لیکن کتاکی نفی کرکے شیر کے قول کو ترجیح دینا اور اسی کو صرف بیان کرنا درست تفسیر نہیں ہے ۔فقط واللہ اعلم بالصواب

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Feb 3 by Darul Ifta
...