17 views
اگر کسی شخص کی فجر کی سنت ترک ہو گئی، تو اس کو کس وقت ادا کرے؟
(۱۱)سوال: اگر کسی شخص کی فجر کی سنت ترک ہو گئی، تو اس کو کس وقت اداء کرے؟
فقط: والسلام
المستفتی: عبد الحفیظ قاسمی، اجراڑہ، میرٹھ
asked Jan 30 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قضاء واجب کے اسقاط کو کہتے ہیں سنت نمازیں وقت پر ادا نہ کرنے کی وجہ سے نفل ہو جاتی ہیں اور سنت ونوافل کی قضاء نہیں ہے، اس لیے فجر کی سنت کی بھی قضاء نہیں ہے، ہاں اگر فجر کی نماز کے ساتھ سنت بھی فوت ہو جائے تو زوال سے پہلے پہلے فرض کے ساتھ سنت کی قضاء کرنے کا حکم تبعاً للفرض ہے اور اگر زوال کے بعد فجر کی قضاء کرے تو صرف فجر کی قضاء ہے سنت کی قضاء نہیں ہے اسی طرح اگر صرف فجر کی سنت رہ گئی ہے تو امام محمد نے طلوع شمس کے بعد زوال سے پہلے پہلے سنت کی قضاء کو بہتر کہا ہے۔
’’ولم تقض سنۃ الفجر إلا بفوتہا مع الفرض إلی الزوال‘‘(۱)
’’وإذا فاتتہ رکعتا الفجر لا یقضیہما قبل طلوع الشمس لأنہ یبقی نفلا مطلقا وہو مکروہ بعد الصبح ولا بعد ارتفاعہا عند أبي حنیفۃ وأبي یوسف وقال محمد: أحب إلی أن یقضیہا إلی وقت الزوال‘‘(۲)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘: ص: ۴۵۳، دارالکتاب دیوبند۔)
(۲) المرغیناني، ھدایۃ، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲۔   أي لا یقضي سنۃ الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فیقضیہا تبعاً لقضائہ لو قبل الزوال، وأما إذا فاتت وحدہا فلا تقضی قبل طلوع الشمس بالإجماع، لکراہۃ النفل بعد الصبح، وأما بعد طلوع الشمس فکذلک عندہما۔ وقال محمد: أحب إلي أن یقضیہا إلی الزوال کما في الدرر۔ قیل ہذا قریب من الاتفاق، لأن قولہ: أحب إلي دلیل علی أنہ لو لم یفعل لا لوم علیہ، وقالا: لایقضي، وإن قضی فلا بأس بہ، کذا في الخبازیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار ’’باب ادراک الفریضۃ، مطلب ہل الإسائۃ دون الکراہۃ أو أفحش‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۲)
ولم تقض سنۃ الفجر إلا بفوتہا مع الفرض إلی الزوال، وقال محمد: تقضی منفردۃ بعد الشمس قبل الزوال فلا قضاء لہا قبل الشمس، ولا بعد الزوال إتفاقا،ً وسواء صلی منفرداً أو بجماعۃ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۳، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص356

 

answered Jan 30 by Darul Ifta
...